قسط 26
بحرحال دکان کا اب میں لیلی میڈیم کو کرایہ بھی دے رہا تھا اورمیرا روز کا آنا جانا بھی بائیک پر ہورہا تھا جسکی وجہ سے میرا روز کا رکشے کا کرایہ بچ رہا تھا اور دکان بھی بہت اچھی چل رہی تھی۔ پھر ایک دن دوپہر کے ہی وقت رافعہ اکیلی ہی میری دکان پر آئی، اور بائی چانس اس وقت میں کھانا کھا رہا تھا اور دکان کا دروازہ لاک تھا مگر اس نے فون کر کے مجھ سے دروازہ کھلوا لیا تھا۔ میں نے اسکو بھی کھانا پیش کیا مگر اس نے کھانے سے انکار کر دیا اور مجھے کہا کہ آپ آرام سے کھانا کھائیں مجھے کوئی جلدی نہیں اور خود آگے جا کر مختلف برا اور پینٹی دیکھنے لگی۔ آج شاید وہ کچھ خریدنے کے موڈ میں تھی۔ جب میں کھانا کھا چکا رافعہ نے مجھ سے ایک برا کی ڈیمانڈ کی جو پچھلی الماری میں پلاسٹک کے مموں والے ڈھانچے پر لگا ہوا تھا اور کافی سیکسی معلوم ہورہا تھا۔ میں نے وہ برا رافعہ کو دیا تو اس نے کہا میں یہ ٹرائی کر لوں؟؟ تو میں نے کہا ہاں ضرورکیوں نہیں تمہاری اپنی ہی دکان ہے۔ یہ سن کر رافعہ نے مجھے ایک سمائل دی اور ٹرائی روم میں چلی گئی۔ اس دوران میں دل کیا کہ میں کیمرے میں رافعہ کو برا تبدیل کرتے ہوئے دیکھوں مگر پھر میں نے سوچا نہیں یہ غلط ہے وہ میری سالی ہے اور ویسے بھی میں کسی لڑکی کو بلاوجہ اس طرح نہیں دیکھتا تھا یہ میرا اصول تھا۔ رافعہ نے یہ برا ٹرائی کرنے میں حیرت انگیز طور پر کافی دیر لگادی اور کوئی 5 منٹ تک وہ ٹرائی روم میں ہی موجود رہی۔
میرے دل نے بار بار کہا کہ ایک بار دیکھو تو سہی وہ اندر کیا کر رہی ہے مگر میری غیرت نے یہ گوارہ نہ کیا اور میں نے کمرہ آن نہ کیا۔ پھر 5 منٹ کے بعد رافعہ باہر نکل آئی اور اسکے ہاتھ میں وہی برا تھا، اس نے وہ برا مجھے پکڑایا اور بولی جیجا جی کیسا لگا آپکو یہ برا؟؟؟ میں نے کہا تمہاری پسند ہے، ویسے سٹائل تو اچھا ہے یہ۔ رافعہ کہنے لگی مجھے تو اچھا لگا ہی ہے آپ بتائیں آپکو کیسا لگا؟؟؟ اسکی آنکھوں میں ہلکی سی شرارت تھی مگر میں اسکی بات نہ سمجھا اور کہا کہ اچھا ہے برا ، تم بتاو اگر تمہیں پسند ہے تو میں پیک کر دیتا ہوں۔ رافعہ نے کہا اگر آپکو اچھا لگا ہے تو پیک کر دیں۔ میں نے اب بھی اسکی بات پر دھیان دیے بغیر برا پیک کر دیا۔ ابھی میں برا پیک ہی کر رہا تھا کہ باہر رافعہ کے کالج کی لڑکیاں نیلم اور شیزہ آگئیں۔ دکان کا دروازہ لاک نہیں تھا اسی لیے وہ دونوں دروازہ کھول کر دکان میں آگئیں اور اندر رافعہ کو دیکھ کر تھوڑا حیران ہوئیں اور انکے چہرے سے لگا جیسے انہیں اسکی یہاں موجودگی پسند نہ آئی ہو۔ مگر ان دونوں نے رافعہ کو رسمی سلام کیا اور اسکے بعد نیلم نے مجھ سے پوچھا کہ کوئی نئے سٹائل میں اچھا سا برا دکھاو۔ میں نے نیلم کو برا دکھایا اور چوری چوری نظروں سے شیزہ کو دیکھنے لگا جو مجھ سے چودائی کروانے کے بعد پہلی بار میری دوکان پر دوبارہ آئی تھی۔
وہ بھی کن اکھیوں سے مجھے دیکھ رہی تھی جیسے التجا کر رہی ہو کہ دوبارہ سے اپنا لن میری چوت میں اتار دو۔ نیلم کو ایک برا پسند آیا تو اس نے شیزہ کو دکھایا ، شیزہ نے کہا ٹرائی کر لو، تو نیلم شیزہ کو لیکر ٹرائی روم میں چلی گئی۔ جیسے ہی نیلم اور شیزہ ٹرائی روم میں گئیں رافعہ میری طرف مڑی اور ہنستے ہوئے آہستہ سی آواز ین کہنے لگی ، کیمرہ آن کرلیں جیجا جی۔۔۔۔ اسکی بات سن کر میں ہکا بکا رہ گیا کہ یہ کیا کہ رہی ہے؟ میں نے ہکلاتے ہوئے اس سے کہا ک ۔ ۔ ۔ کیا مط ۔۔ ۔ مطل۔ ۔ ۔ ۔ مطلب ہے ت۔ ت۔ تمہارا؟؟؟ اس پر رافعہ نے ہلکا سا قہقہ لگایا اور بولی جیجا جی مجھے سب معلوم ہے آپکی چوریوں کا، جو آپ نے کیمرہ لگایا ہوا ہے نا ٹرائی روم میں اور جو آپ تھوڑی دیر پہلے مجھے بھی دیکھ رہے تھے۔۔۔ اسکی بات سن کر مجھے ایک شاک لگا اور میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ میں اسے کیا کہوں؟؟ میرے لیے رافعہ کی یہ بات بالکل غیر متوقع تھی خاص طور پر اسکا یہ کہنا کہ میں اسے دیکھ رہا تھا۔ میں نے پھر اسے غصے سے دیکھا اور کہا کیا مطلب ہے میں تمہیں دیکھ رہا تھا؟؟؟ میں تمہیں اتنا بے غیرت لگتا ہوں کہ تمہیں کیمرے میں دیکھوں گا برا تبدیل کرتے ہوئے؟؟ میری بات سن کر رافعہ مسکرائی اور بولی اچھا اب تو میرے سامنے بڑے شریف بن رہے ہیں؟؟؟ کیا آپ نے ملیحہ آپی کو نہیں دیکھا؟؟؟ انہوں نے مجھے سب بتا دیا ہے۔ میں نے کہا ملیحہ میری منگیتر ہے اگر میں اسکو دیکھ بھی لوں تو کئی حرج نہیں، تم میری سالی ہو تمہارے بارے میں ایسا سوچ بھی ںہیں سکتا میں۔ اور نہ ہی میں نے تمہیں دیکحا ہے برا تبدیل کرتے ہوئے، اور اگر ملیحہ نے تمہیں بتا ہی دیا ہے کہ ٹرائی روم میں کیمرہ ہے تو اس نے یہ بھی بتایا ہوگا کہ میں صرف تب دیکھتا ہوں جب مجھے محسوس ہو کہ اندر کچھ غلط حرکات ہورہی ہیں۔ ورنہ میں نے کبھی یہ کیمرہ آن نہیں کیا۔ میری بات سن کر رافعہ تھوڑی سیریس ہوئی اور بولی اچھا جیجا جی آپ تو غصہ ہی کر گئے میں تو مذاق کر رہی تھی۔ بس آپکو چیک کرنا تھا اور آپ پاس ہوگئے۔ یہ کہ کر رافعہ پھر سے ہنسنے لگی۔ اتنے میں نیلم اور شیزہ بھی ٹرائی روم سے نکل آئیں اور بولیں ابھی یہ تو صحیح فٹ نہیں ہے اور ہمیں دیر بھی ہورہی ہے ہم پھر کسی دن آکر لے لیں گی۔ یہ کر کر نیلم اور شیزہ رافعہ کو گھورتے ہوئے بار نکل گئیں اور کچھ دیر بعد رافعہ بھی اپنا خریدا ہوا برا لیکر باہر چلی گئی۔ مگر میں اسکے جانے کے بعد کافی دیر تک اسکے بارے میں سوچتا رہا۔ جو وہ مجھ سے بار بار پوچھ رہی تھی کہ آپکو یہ برا کیسا لگا، اسکا مطلب وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ میں کیمرے میں اسے دیکھ رہا ہوں، اور ہوسکتا ہے اس نے جو اتنی دیر لگائی ٹرائی روم میں اسکا مقصد شاید یہ ہو کہ میں اسکا جسم اور اسکے جسم پر برا کو اچھی طرح دیکھ لوں۔۔۔۔۔ اور اگر اسے معلوم تھا کہ اندر کیمرہ لگا ہوا ہے تو آخر وہ ٹرائی روم میں گئی ہی کیوں؟؟ وہ تو ویسے ہی کافی شرمیلی لڑکی تھی مگر اسے ہو کیا گیا ہے کہ یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ ٹرائی روم میں کیمرہ ہے وہ تبدیل کرنے کے لیے چلی گئی۔ اور پھر بار بار مجھ سے پوچھتی رہی کہ آپکو برا کیسا لگا؟؟؟ یعنی کہ وہ اپنی طرف سے ٹرائی روم میں مجھے برا دکھانے گئی تھی کہ اسکا خیال تھا میں کیمرہ آن کر کے اسکو دیکھوں گا؟؟؟ تبھی میرے ذہن نے کہا باس ، ہو نہ ہو دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ میں جو منگنی سے پہلے رافعہ سے دوستی کا خواہشمند تھا اور وہ مجھے پیاری بھی لگتی تھی مگر منگنی کے بعد میں نے اسکے بارے میں اس انداز سے سوچنا چھوڑ دیا تھا اب دوبارہ سے میرے ذہن میں اسکے بارے میں پہلے والے خیالات آنے لگ گئے تھے۔
پھر اگلے ہی دن ملیحہ اور رافعہ دوبارہ سے میری دکان پر آگئیں۔ اور ملیحہ نے مجھے بتایا کہ وہ لوگ ایک شادی پر جا رہے ہیں تو اسے ایک خوبصورت سا برا چاہیے جو فوم والا ہو۔ میں نے ایک اچھا سا برا ملیحہ کو دکھایا تو ملیحہ نے رافعہ کہ کہا کہ آجاو میں ٹرائی کر لوں، مگر رافعہ نے کہا میں نہیں جاتی تم جیجا جی کو لے جاو۔ رافعہ کی بات سن کر ملیحہ نے ایک دم حیران ہوکر میری طرف دیکھا اور پھر غصے سے رافعہ کو بولی یہ کیا بکواس ہے؟؟؟ رافعہ نے ہنستے ہوئے کہا س میں بکواس والی کونسی بات ہے؟؟؟ منگیتر ہیں وہ تمہارے، اور ویسے بھی مجھے یہاں جیولری دیکھنی ہے ، یہ کہ کر رافعہ مجھ سے مخاطب ہوئی کہ آپ خود آپ کو بتاد یں دیکھ کر کہ کیسا لگ رہا ہے ان پر برا، میرا تو یہ سر کھا جاتی ہیں۔ یہ کہ کر رافعہ جیولری کی طرف کھڑی ہوگئی اور میں مسکراتا ہو ملیحہ کو دیکھ کر کہنے لگا چلو اب قدرت کو یہی منظور ہے، میں اپنی آنکھیں بند کرلوں گا تم فکر نہیں کرو۔ یہ کہ کر میں ملیحہ کو ٹرائی روم کی طرف لے گیا ، وہ بھی ہچکچاتے ہوئے ٹرائی روم کی طرف بڑھنے لگی۔ اسے شاید امید نہیں تھی کہ رافعہ اسے یہ مشورہ دے گی اور میں بھی رافعہ کے اس مشورہ پر عمل کر لوں گا۔ جبکہ میں رافعہ کے بارے میں کچھ کچھ اب صحیح اندازہ لگا رہا تھا۔
ملیحہ ٹرائی روم میں گئی اور میں بھی اسکے ساتھ اندر جا کر کنڈی لگانے لگا تو رافعہ کی آواز آئی جیجا جی ، 1، 2 برا اور لے جاو آپی کو آسانی سے کوئی چیز پسند نہیں آتی۔ یہ سن ک میں نے ملیحہ کو کہا تم یہیں رکو میں 2 برا اور لے آوں۔ ملیحہ نے مجھے روکا اور بولی مجھے شرم آتی ہے، رافعہ کیا سوچے گی؟؟؟ میں نے کہا اس نے کیا سوچنا ، اور ویسے بھی تم نے اسے کیوں بتایا کہ میں کیمرے میں اسے دیکھ رہا تھا، اب اس نے یہی سوچا کہ اگر کیمرے میں ہی میں نے تمہیں دیکھنا ہے تو کیوں نہ آمنے سامنے دیکھ لوں، بس تم یہیں رکو میں ابھی آیا۔ میں باہر گیا تو رافعہ جیولری والی جگہ کو چھوڑ کر کاونٹر کے اندر کھڑی تھی اور میری کمپیوٹر سکرین آن کر چکی تھی۔ میں نے یہ دیکھ کر کہا یہ کیا کر رہی ہو؟؟؟ اس پر رافعہ مسکرائی اور بولی اس دن تو زیادہ موقع نہیں ملا تھا آ پ دونوں کی کسنگ دیکھنے کا مگر آج میں نے آپ دونوں کو کسنگ کرتے دیکھنا ہے۔۔۔ میں نے آہستہ سے کہا رافعہ تم پاگل ہورہی ہو کیا؟؟؟ تو رافعہ نے کہا اس میں پاگل ہونے والی کونسی بات ہے؟؟؟ مجھے پتا ہے اندر آپ دونوں کسنگ کرو گے برا تو آپی تبدیل نہیں کریں گی سارا ٹائم کسنگ میں ہی لگا کر آجاو گے اور آکر کہو گے فٹنگ بالکل ٹھیک ہے برا کی۔ اب چپ کر کے مجھے کیمرہ آن کر کے دو تاکہ میں آپ دونوں کو کسنگ کرتے دیکھ سکوں۔ رافعہ کے بارے مِیں غلط سوچ تو کل سے ہی میرے دماغ میں چل رہی تھی میں نے سوچا چلو رافعہ کو پھنسانے کا یہی طریقہ ٹھیک ہے جب وہ خود ہی غلط کام کرنا چاہ رہی ہے تو میں بھی اسکا فائدہ اٹھاوں۔ یہ سوچ کر میں نے کیمرہ آن کر دیا اور جلدی سے 2 برا اٹھا کر ٹرئی روم میں چلا گیا جہاں ملیحہ میرا انتطار کر رہی تھی۔ اب یہ تو میں جانتا ہی تھا کہ باہر بیٹھی رافعہ ہمیں دیکھ رہی ہے اس لیے میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ اسے اسکی توقعات سے بڑھ کر ہی کچھ دکھانا ہے۔ لہذا اندر جاتے ہی وقت ضائع کیے بغیر میں نے ملیحہ سے کہا کہ وہ اپنی قمیص اتار دے، ملیحہ بھی جو پہلے مجھے اپنی قمیص اتار کر اپنا سینہ دکھا چکی تھی اور فون پر میرا لن دیکھنے پر بھی راضی ہو چکی تھی اس نے فورا ہی اپنی قمیص اتار دی اور میں نے اسے گھما کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اسکے ممے پکڑ کر دبانا شروع کر دیے اور اسکی گردن کو چومنا شروع کر دیا۔ میں جانتا تھا کہ رافعہ کو اتنے کی امید تو رہی ہی ہوگی کہ میں ملیحہ کے ممے دیکھوں گا مگر آگے کیا کچھ کروں گا وہ رافعہ کے ذہن میں نہیں ہوگا۔ میں کچھ دیر تک ملیحہ کے ممے دباتا رہا اور پھر آہستہ آہستہ اپنا ایک ہاتھ نیچے کی طرح لیجا کر اسکی چوت کے اوپر لے گیا۔ ملیحہ نے مجھے روکنے کی سرسری سی کوشش کی مگر پھر جیسے ہی میرا ہاتھ اسکی چوت کے ساتھ لگا اس نے میرا ہاتھ زور سے پکڑ کر اپنی چوت پر دبا دیا اور میں نے آہستہ آہستہ اسکی شلوار کے اوپر سے ہی اسکی چوت کو رگڑنا شروع کر دیا۔
کچھ دیر بعد میں نے ملیحہ کے برا کی ہُک کھول دی اور اسکا برا اتار کر سائیڈ پر لگی کھونٹی پر لٹکا دیا اور پہلی بار ملیحہ کے مموں کو ننگا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسکے ممے بہت خوبصورت اور سڈول تھے، انکی بناوٹ ایسی تھی کہ برا اتارنے کے باوجود بھی اسکی کلیویج بن رہی تھی اور دونوں ممے آپس میں کسی حد تک جڑے ہوئے تھے۔ میں نے ملیحہ کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور اسے بتایا کہ اسکے ممے بہت خوبصورت اور سیکسی ہیں، اپنی گود میں اٹھانے کے بعد میں نے ملیحہ کے مموں کو منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیا اور ملیحہ نے اپنی دونوں ٹانگیں میری کمر کے گرد لپیٹ لیں۔ ملیحہ کو بھی ممے چوسے جانے کا بہت مزہ آرہا تھا اس لیے وہ ہلکی ہلکی سسکیاں بھی لے رہی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد میرے سر کے اوپر اپنا سر رکھ کر جھک جاتی مگر میں اسکو فورا ہی سیدھا کرتا کیونکہ کیمرہ اوپر کی جانب تھا اور اگر ملیحہ یوں میرے اوپر جھکے گی تو باہر بیٹھی رافعہ کو ملیحہ کے ممے نظر نہ آتے جنہیں میں بہت بے تابی سے چوس رہا تھا اور باہر بیٹھی رافعہ کی چوت یقینی طور پر یہ دیکھ کر گیلی ہورہی ہوگی۔ ملیحہ کو میں نے کمر سے سہارا دیکر تھوڑا پیچھے کی جانب بھی دھکیل دیا اور اپنی زبان اسکے نپل پر پھیرنے لگا جس سے ملیحہ کی سسکیوں میں مزید اضافہ ہونے لگا اور ساتھ ساتھ اسکا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ کچھ دیر تک میں یونہی ملیحہ کو اپنی گود میں اٹھائے کھڑا رہا، پھر میں نے اسکے مموں کو چھوڑ کر اسے نیچے اتار دیا اور اسکے پیٹ پر بیٹھ کر کسنگ کرنے لگا، میں نے اسکی ناف میں اپنی زبان گول گول گھمائی اور اسکے بعد اسکی شلوار کی طرف جانے لگا ، جیسے ہی میری زبان ملیحہ کی شلوار تک پہنچی اس نے مجھے روک دیا، مگر میں نے ملیحہ کو کہا مجھے صرف ایک بار اپنی چوت دکھا دو آج۔ اس نے مجھے منع کیا اور بولی ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم سہاگ رات پر ہی سیکس کریں گے صرف، میں نے اسے کہا ہاں میں تمہاری چوت سہاگ رات میں ہی پھاڑوں گا مگر آج تو صرف دیکھنی ہے، یہ کہ کر میں نے اسکی شلوار ہلکی سی نیچے کر دی اور اسکی کنواری چوت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسکی چوت کے لب آپس میں ملے ہوئے تھے اور بیچ میں بالکل بھی جگہ نظر نہیں آرہی تھی۔ اسکی چوت کا دانہ بھی زیادہ واضح نہیں تھا، چوت پر چھوٹے چھوٹے بال تھے جیسے اس نے ایک ہفتہ پہلے اپنے بال صاف کیے ہوں۔ اسکی چوت دیکھنے کے بعد میں نے اس پر زبان رکھی اور اسکو چاٹنے لگا۔ ملیحہ نے ایک بار پھر مجھے یہ کام کرنے سے منع کیا مگر میں نے کہا بس 2 منٹ مجھے اپنی چوت چاٹنے دو اور میں نے اسکی چوت کو چاٹنا جاری رکھا۔
میرا یہاں ملیحہ سے سیکس کا کوئی ارادہ نہیں تھا کیونکہ میں اس سے ایسی جگہ پر سیکس کرنا بھی نہی چاہتا تھا، وہ میری ہونے والی بیوی تھی اور اس سے گھر میں ہی سیکس کرنا مناسب تھا، مگر اس وقت رافعہ کو گرم کرنا ضروری تھا جو باہر بیٹھی ہمارا سیکس سین دیکھ رہی تھی۔ کچھ دیر اسکی چوت چاٹنے کے بعد میں واپس کھڑا ہوگیا اور اب ملیحہ کے رسیلے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر انکو چوسنا شروع کر دیا اور ملیحہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا۔ جیسے ہی میرے 8 انچ کے لمبے اور موٹے لن پر ملیحہ کا ہاتھ لگا اسکے ہاتھ کو ایک دم جھٹکا لگا اور اس نے ہاتھ پیچھے ہٹانے کی کوشش کی مگر میں نے اسکا ہاتھ مظبوطی سے پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا اور اسکے ہونٹ چوسنا جاری رکھے جب ملیحہ نے کچھ دیر بعد میرا لن اپنے ہاتھ سے مظبوطی سے پکڑ لیا تو میں نے اسے کہا کہ آہستہ آہستہ میرے لن کو آگے پیچھے کرے۔ ملیحہ نے میرے کہنے پر میرے لن کی مٹھ مارنا شروع کر دی اور ساتھ ساتھ کسنگ بھی جاری رکھی۔ میری زبان ملیحہ کے منہ میں تھی اور میں اسکے منہ میں اپنی زبان گول گول گھما رہا تھا۔ ملیحہ بھی کافی حد تک گرم ہوچکی تھی اس لیے وہ کبھی کبھی میری زبان کو اپنی زبان سے چوس بھی رہی تھی۔ تھوڑی دیر تک کسنگ کرنے کے بعد میں نے ملیحہ کو کہا کہ اب وہ میرا لن ننگا کر کے بھی دیکھے جس پر ملیحہ نے فورا ہی انکار کر دیا۔ میں نے ملیحہ کو پیار سے اپنے گلے سے لگایا اور اسکا ایک مما اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دباتے ہوئے اسے کہا کہ دیکھو میں نے تمہارے ممے چوس کر اور تمہاری چوت چاٹ کر تمہیں مزہ دیا ہے، اب تم بھی اتنا تو کرہ کہ ایک بار میرا لن میری شلوار سے نکال کر اسے شلوار کے بغیر پکڑو اپنے پیارے سے ہاتھ سے۔ ملیحہ نے کہا مجھے ڈر لگتا ہے۔ میں نے کہا ارے میں کونسا لن تمہاری چوت میں ڈالنے لگا ہوں محض تم نے پکڑنا ہی ہے۔ اور ویسے بھی فون پر تمنے خود ہی تو کہا تھا کہ تم میرا لن دیکھنا چاہتی ہو۔۔۔ اس پر ملیحہ نے کہا وہ تو ٹھیک ہے مگر باہر رافعہ بیٹھی ہے۔ میں نے کہا ارے یار اسے کیا پتا کہ ہم اندر کیا کر رہے ہیں۔ وہ تو یہی سمجھے رہی ہوگی بس کسنگ وغیرہ ہی کر رہے ہیں۔ اس پر ملیحہ خاموش ہوگئی اور اسکی خاموشی کو ہاں سمجھ کر میں نے فورا ہی اپنی شلوار کا ناڑا کھول کر اپنا 8 انچ لمبا لن باہر نکال لیا اور اسکو نیچے سے پکڑ کر سیدھا ہاتھ پر رکھ لیا تاکہ اوپر لگے کیمرے میں لن کو واضح طور پر دیکھا جا سکے۔ ملیحہ کی نظر میرے لن پر پڑی تو ایک لمحے کے لیے تو اسکی آںکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ بولی اف توبہ،،، اتنا لمبا لن تم میری چھوٹی سی چوت میں ڈالوگے؟؟؟ وہ تو پھٹ جائے گی۔۔۔ میں نے اسے کہا جان ابھی تو نہیں ڈال رہا نہ، ابھی تو تم نے صرف اسکو پکڑنا ہے اپنے اس پیارے سے ہاتھ میں۔
یہ کہ کر میں نے ملیحہ کا ہاتھ اپنے لن پر رکھ دیا، اس نے بھی ڈرتے ڈرتے میرا لن پکڑ لیا اور اسے ہلکے ہلکے ہلانے لگی۔ میں نے اپنا چہرہ اوپر کیمرے کی طرف کر کے ایک سسکی لی جیسے مجھے بہت زیادہ مزہ آرہا ہو، لیکن اصل میں میں رافعہ کی طرف منہ کر رہا تھا کہ لو ، یہ میرا لن دیکھ لو تم بھی۔ ملیحہ آہستہ آہستہ میرے لن کو آگے پیچھے کر رہی تھی پھر ایک دم سے وہ بولی یہ اتنا گرم کیوں ہورہا ہے؟؟؟؟ میں نے کہا تمہاری چوت بھی تو گرم ہورہی تھی اسی طرح یہ بھی گرم ہوتا ہے۔ پھر میں نے ملیحہ کو کہا کہ اسکو اپنے منہ میں لو۔ ملیحہ نے کہا نہیں یہ گندا ہے۔ میں نے کہا تو تمہاری چوت کونسا صاف ستھری تھی وہ بھی تو گندی تھی مگر میں نے اسکو چاٹا تاکہ تمہیں مزہ آئے، تم میرے لیے اتنا سا نہیں کر سکتی؟؟؟ میری بات سن کر ملیحہ بے بسی سے مجھے دیکھنے لگی اور میری آنکھوں میں التجا دیکھ کر نیچے بیٹھ گئی اور میں نے ایک بار پھر اپنا چہرہ اوپر کیمرے کی طرف کر لیا جیسے میں رافعہ کو کہ رہا ہوں کہ جیسے تمہاری بہن میرا لن منہ میں لینے لگی ہے ویسے ہی تم نے بھی اس کو اپنے منہ میں لینا ہے پہلے پھر یہ تمہاری چوت میں جائے گا۔
ملیحہ نے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسکے شافٹ پر اپنے ہونٹ رکھ کر ایک کس کی اور پھر سے اسکو دیکھنے لگی۔ میں نے ملیحہ کو کہا کہ پلیز آگے سے بھی کس کرو۔ اس نے کہا آگے والے حصے پر آپکا پانی لگا ہوا ہے۔ میں نے اپنے ہاتھ سے اپنی مذی صاف کر دی اور اسے کہا اب اپنے ہونٹوں سے کس کرے اس پر۔ ملیحہ نے ہچکچاتے ہوئے اپنے ہونٹ میرے لن کی ٹوپی پر رکھ دیے اور ان پر ایک کس کی۔ پھر میں نے اسے کہا کہ اس پر اپنی زبان بھی پھیرے تو ملیحہ نے اپنی زبان باہر نکال لی اور میرے لن کی ٹوپی پر رکھ کر اس پر آہستہ آہستہ پھیرنے لگی۔ ملیحہ کی زبان کو اپنے لن پر محسوس کر کے مجھے بہت مزہ آرہا تھا۔ ملیحہ اب کافی گرم ہوچکی تھی اور اسکی شرم بھی کافی حد تک ختم ہوگئی تھی، اس نے اپنی زبان اب میرے لن پر پھیرنا شروع کر دی تھی۔ وہ ٹوپی پر زبان رکھتی اور اسکو لن کی جڑ تک پھیرتی جس سے میرا لن کافی حد تک گیلا ہوچکا تھا اور میں اوپر منہ کر کے سسکیاں لے رہا تھا۔ میں نے کیمرے کی طرف منہ کر کے ایک آنکھ بھی ماری کیونکہ میں جانتا تھا کہ باہر بیٹھ رافعہ کا چہر اس وقت سرخ ہورہا ہوگا اور سیکس کے مارے اسکی چوت گیلی ہورہی ہوگی، اسکے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ اندر اسکی بہن اسکے جیجو کا لن چوسے گی۔ کچھ دیر بعد میں نے ملیحہ کو کہا کہ ایک بار اسکو اپنے منہ میں بھی لو نا، تو ملیحہ نے اس بار بغیر کچھ کہے میرے لن کی ٹوپی اپنے منہ میں لے لی اور اسکو چوسنے لگی۔ اسکے دانت کسی حد تک میرے لن پر چبھ رہے تھے مگر میں نے ہمت کر کے اسکو برداشت کیا کیونکہ اگر میں اس پر اظہار کرتا کہ مجھے تکلیف ہورہی ہے تو شاید وہ میرا لن دوبارہ منہ میں لینے سے ہی انکار کر دیتی۔ میرا لن منہ میں لیکر چوستے ہوئے ملیحہ نے اپنے ایک ہاتھ سے میرے ٹٹے بھی پکڑ لیے اور انہیں دبانے لگی۔ پھر معلوم نہیں اسکو کیا ہوا کہ وہ لن منہ سے نکال کر ایک دم ہنسنے لگی۔ میں نے پوچھا ارے کیا ہوا ہنس کیوں رہی ہو؟؟؟ وہ بولی تمہارے یہ چھوٹے چھوٹے ٹٹے دیکھ کر ہنسی آرہی ہے۔ میں نے کہا یہ چھوٹے لگ رہے ہیں تمہیں؟؟؟ تو وہ بولی جتنا بڑا تمہارا لن ہے اسکے سامنے تو ٹٹے چھوٹے ہی ہیں۔ میں نے کہا یہ تو ہوتے ہی چھوٹے ہیں۔ ملیحہ بولی دیکھو تو تمہارا لن کیسے اس وقت سخت ہورہا ہے جیسے لوہے کا ڈنڈا ہو کوئی اور ٹٹے دیکھو کیسے انکا ماس لٹک رہا ہے، یہ کر کو وہ پھر ہنسنے لگی۔ میں نے کہا اچھا اب ہنسنا چھوڑا اور کھڑی ہوجاو ہمیں کافی دیر ہوگئی ہے۔ یہ کہ کر میں نے اپنی شلوار اوپر کر کے دوبارہ سے ناڑا باندھ لیا اور اس سے پہلے کہ ملیحہ اپنی قمیص پہنتی، میں نے ایک بار پھر اسکو اپنے قریب کر کے اسکے ممے چوسنا شروع کر دیے۔ اور کچھ ہی دیر اسکے مموں کو چوس کر اسے چھوڑ دیا اور کہا تم کپڑے پہن کر باہر آجاو میں باہر جارہا ہوں
یہ کہ کر میں نے فورا ہی دروازہ کھولا اور جلدی سے باہر نکل گیا کیونکہ میں رافعہ کے تاثرات دیکھنا چاہتا تھا، اور میری توقعات کے عین مطابق سیکس کی ہوس اور طلب کے مارے رافعہ کا چہرہ اس وقت سرخ ہورہا تھا اور مجھے اتنی جلدی اپنے سامنے دیکھ کر وہ کمپیوٹر سکرین بھی آف نہیں کر پائی تھی جس پر ملیحہ اپنا برا پہنتے نظر آرہی تھی۔ میں رافعہ کے قریب آیا اور اس سے کہا، کیسی لگی پھر ہم دونوں کی کسنگ؟؟؟ رافعہ سر جھکائے بیٹھی رہی اسکی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں اور وہ مجھ سے نظریں نہںیں ملا رہی تھی۔ میں نے پھر سے پوچھا اچھا چلو کسنگ کو چھوڑو یہ بتاو اپنے جیجو کا "وہ" کیسا لگا؟؟؟ اس پر بھی رافعہ کچھ نہ بولی بس اپنی حالت درست کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ پھر میں نے رافعہ کو کہا میں نے تو تمہیں اپنا "وہ" دکھا دیا ہے لیکن اب تم بھی مجھے اپنے بوبز دکھاو گی کیونکہ پہلے میں نے واقعی میں تمہیں برا تبدیل کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، مگر اب تمہارا خوبصورت سینہ دیکھنے کا من کر رہا ہے۔ میری بات سن کر رافعہ کانپتی ہوئی آواز میں محض اتنا ہی بولی سلمان بھائی پلیز۔۔۔۔ مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی۔
بریزر والی شاپ
قسط 27
میں نے رافعہ کو کہا کیوں تم خود بھی تو مجھے اپنے بوبز دکھانا چاہتی تھی، وہ تو میری شرافت کہ میں نے دیکھے نہیں۔ اور اگر تم نے پہلے ملیحہ اور مجھے کسنگ کرتے دیکھا تو یہ بھی دیکھا ہوگا کہ میں نے اسکی قمیص اٹھائی ہوئی تھی اور اسکے مموں کو دبا رہا تھا۔ اور تم جانتی تھی کہ اب بھی اندر یہی کچھ ہوگا، تم نے جان بوجھ کر مجھے ملیحہ کے ساتھ جانے کو کہا اور کیمرہ بھی آن کروایا تاکہ تم یہ سب کچھ دیکھ سکو۔ جو تم دیکھنا چاہتی تھی وہی تمہیں دکھایا ہے۔ بس اب جو میں دیکھنا چاہتا ہوں وہ تم مجھے دکھاو گی۔ اور اب جلدی سے باہر آجاو ملیحہ آنے ہی والی ہے۔ یہ کہ کر میں نے کیمرہ اور کمپیوٹر سکرین دونوں ہی بند کر دی اور رافعہ بھی جلدی سے اٹھ کر کاونٹر سے باہر آگئی۔ اور جب رافعہ کاونٹر سے باہر نکل کر کھڑی ہوئی تبھی ملیحہ بھی ٹرائی روم کا دروازہ کھول کر باہر آگئی۔ اسکے چہرے پر ابھی تک اندر ہونے والے سیکس کی وجہ سے خوشی کے آثار تھے جبکہ رافعہ کا چہرہ بھی کچھ اڑا اڑا سا تھا وہ مجھ سے اور ملیحہ سے نظریں نہیں ملا رہی تھی بس خاموش کھڑی تھی۔ ملیحہ کے باہر آنے کے بعد میں نے ملیحہ کو 2 برا اپنی پسند کے شاپر میں ڈال کر دیے تو رافعہ فورا ہی جانے کے لیے کھڑی ہوگئی۔ ملیحہ ابھی کچھ دیر مزید رک کر مجھ سے باتیں کرنا چاہتی تھی مگر رافعہ نے اسکو ایسا نہ کرنے دیا اور بولی کہ گھر سے امی کا فون آیا ہے کہ جلدی آجاو کافی دیر ہوگئی ہے۔ امی کا سن کر ملیحہ نے بھی جلدی سے جانے کی کی اور مجھے گڈ بائے کہ کر اور ہاتھ ملا کر چلی گئی۔
اسکے بعد کافی دن تک ملیحہ اور میری فون پر بات چلتی رہی مگر رافعہ نے نہ تو کبھی مجھ سے فون پر بات کی اور نہ ہی وہ دکان پر آئی۔ حالانکہ جب ملیحہ اور میری بات ہوتی تھی تو بیچ میں کبھی کبھی رافعہ اس سے فون پکڑ کر مجھ سے بات کر لیتی تھی۔ مگر جب سے رافعہ نے کیمرے میں میرا لن دیکھا تھا اس نے مجھ سے بات نہیں کی تھی۔ اس بات پر مجھے تھوڑی سی پریشانی تو ہوئی تھی کہ کہیں وہ یہ بات اپنے گھر نہ بتا دے اگر اسے زیادہ ہی بری لگی ہو میری یہ حرکت مگر پھر میں نے سوچا کہ اگر اس نے بتانی ہی ہوتی تو وہ آخر تک ہمارا شو کیوں دیکھتی؟؟؟ اور اب تک ملیحہ کو بتا چکی ہوتی مگر ملیحہ تو نارمل بات کر رہی تھی مجھ سے اس نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا تھا کہ گھر میں رافعہ کی وجہ سے کوئی مسئلہ بنا ہو۔ اور ویسے بھی مجھے اس بات کا یقین تھا کہ وہ خود ہی یہ سب کچھ دیکھنا چاہ رہی تھی اور میں نے اسکی خواہش کے مطابق اسے دکھا دیا تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ اسے یہ امید نہیں تھی کہ اتنی جلدی یہ سب کچھ ہوجائے گا۔ اس لیے میں نے اسکے بارے میں پریشان ہونا چھوڑ دیا اور مجھے معلوم تھا کہ وہ ضرور کچھ دنوں تک نارمل ہوجائے گی پھر ایک جمعہ والے دن میں نے دوستوں کےساتھ ٹیوب ویل پر نہانے کا پروگرام بنایا اور صبح 6 بجے ہی کچھا اور ٹی شرٹ پہن کر موٹر سائیکل سٹارٹ کر کے دوست کی طرف جانے لگا کہ میڈیم لیلی کی کال آگئی۔ اتنی صبح صبح لیلی میڈیم کی کال دیکھ کر مجھے کافی حیرت ہوئی۔ میں نے فون اٹینڈ کیا تو لیلی میڈیم سے ہائے ہیلو کے بعد لیلی میڈیم نے پوچھا کہ میں نے صبح صبح کال کر کے تمہیں تنگ تو نہیں کیا؟؟؟ میں نے کہا نہیں میم میں تو خود ہی آج صبح اٹھ گیا تھا میرا اپنے دوستوں کے ساتھ ٹیوب ویل پر نہانے کا پروگرام ہے آج۔ میری بات سن کر لیلی میم نے کہا او ہو۔۔۔۔۔ تو تم اپنے دوستوں کے ساتھ جارہے ہو؟؟؟ میں نے کہا جی ہاں۔۔۔ خیریت ہے ؟ کوئی کام ہے تو بتائیں۔۔۔ لیلی میم نے کہا اصل میں آج میں نے سوچا تھا کہ تمہارے ساتھ جا کر ذرا اپنی حویلی کو چکر لگا آوں۔ میں نے کہا کونسی حویلی؟؟ آپکے گاوں میں؟؟ لیلی میم بولیں نہیں وہاڑی چوک سے کچھ آگے بہاولپور روڈ پر ہماری زمین ہے تو وہاں ہم ایک حویلی بنوا رہے تھے جسکا کام ابھی رکا ہوا ہے۔ مگر مہینے میں ایک بار میں وہاں کا چکر ضرور لگاتی ہوں تو میں نے سوچا تھا آج تمہارے ساتھ وہیں چلی جاوں۔ میں نے مروت میں لیلی میم کو کہا کوئی بات نہیں میڈیم اگر آپ کہتی ہیں تو میں آجاتا ہوں۔۔۔ میم نے کہا لیکن تمہارا اپنا پروگرام؟ میں نے کہا کوئی بات نہیں میڈیم وہ ہم اگلے جمعہ کو بنا لیں گے۔ میرا خیال تھا کہ لیلی میم مجھے منع کر دیں گی اور کہیں گی کہ ہم اگلے جمعہ کو حویلی چلے جائیں گے مگر ابھی تم اپنے دوستوں کے ساتھ جاو۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا الٹا لیلی میم نے مجھے کہا ٹھیک ہے پھر تم آجاو میرے گھر یہاں سے اکٹھے آگے نکل جائیں گے۔
مجھے لیلی میڈیم پر غصہ تو بہت آیا مگر پھر سوچا کہ چلو شاید لیلی میم کا کام زیادہ ضروری ہو تو اس طرح کسی کی مدد کرنے میں کیا حرج ہے جب انہوں نے مشکل وقت میں میرا ساتھ بھی دیا ہو۔ یہی سوچ کر میں واپس اپنے کمرے میں گیا اور ایک انڈر وئیر اٹھا کر پہن لیا کیونکہ اب لیلی میم کو دیکھ کر میرا لوڑا بلاوجہ ہی کھڑا ہوجاتا تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ لیلی میم کبھی یہ سوچیں کہ انہیں دیکھ کر میری حالت خراب ہوتی ہے اس لیے میں نے انڈر وئیر پہن لیا اور موٹر سائکل پر لیلی میم کے گھر پہنچ گیا۔ انکے گھر بھی میں اسی کچھے اور ٹی شرٹ میں چلا گیا تھا۔ میں انکے گھر میں داخل ہوا تو لیلی میم اپنے لان میں ہی بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھیں۔ مجھے موٹر سائیکل پر دیکھ کر وہ کافی حیران ہوئیں اور پوچھا یہ تمہارا اپنا ہے؟؟؟ تو میں نے کہا جی میم بس کچھ دن پہلے ہی لیا ہے۔ لیلی میم نے مجھے بائیک کی مبارکباد دی اور بولیں چلو پھر تمہارے بائک پر ہی چلتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟؟؟ میں نے کہا ٹھیک ہے میم جیسے آپکی مرضی۔ دل ہی دل میں میں خوش بھی ہوا کہ لیلی میم میرے ساتھ جڑ کر بائک پر بیٹھیں گی۔ لیلی میم اس وقت ایک شلوار قمیص اور چھوٹے دوپٹے میں ملبوس تھیں۔ انہوں نے کہا چلو پھر تمہاری بائیک پر ہی چلتے ہیں اور انہوں نے مجھے بائیک سٹارٹ کرنے کا کہا اور خود میرے پیچھے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئیں۔ میں نے بائیک کو ریس دی اور انکے گھر سے نکل کر وہاڑی چوک کی طرف بڑھنے لگا جہاں سے مجھے آگے بہاولپور روڈ کی طرف جانا تھا۔ صبح 6 بج کر 30 منٹ کا وقت تھا روڈ پر زیادہ ٹریفک نہیں تھی اس لیے میں قدرے تیز رفتاری کے ساتھ بائیک چلا رہا تھا کہ اچانک روڈ پر وہاڑی چوک سے کچھ پہلے ایک بچہ آگیا جسکی وجہ سے مجھے اچانک بریک لگانی پڑی اور لیلی میم بائک کی سیٹ پر تھوڑا سا پھسل کر میرے قریب ہوگئیں اور انکے 36 سائز کے کسے ہوئے ممے مجھے اپنی کمر پر محسوس ہونے لگے۔ لیلی میم نے مجھے کہا کہ دھیان سے بائیک چلاو تو میں نے رفتار تھوڑی دھیمی رکھی مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ لیلی میم دوبارہ سے پیچھے نہیں ہوئیں بلکہ وہ اپنے ممے میری کمر میں گھسائے میرے ساتھ چپک کر بیٹھی رہیں جسکی وجہ سے میرے انڈروئیر میں میرے لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا اور میں شکر کر رہا تھا کہ میں نے انڈر وئیر پہن لیا تھا۔ لیلی میم کے ممے مسلسل میری کمر کے ساتھ لگے ہوئے تھے مگر انہوں نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی تھی جسکی وجہ سے میں یہ سمجھتا کہ وہ اس وقت سیکس کے لیے تیار ہیں، نہ تو انہوں نے میری کمر پر اپنے مموں کو مسلا اور نہ ہی زیادہ چپک کر بیٹھیں، جتنا قریب وہ بریک لگنے کی وجہ سے ہوئیں تھیں بس اتنا ہی قریب ہوکر وہ بیٹھیں تھی اور انکے ممے میری کمر پر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔
کچھ ہی دیر بعد ہم بہاولپور روڈ پر پہنچ چکے تھے جہاں قریب 2 سے 3 میل کی دوری پر جا کر لیلی میم نے مجھے ایک کچے راستے پر چلنے کو کہا اور میں نے بائیک کچے راستے پر چلا دی۔ یہاں بائیک کی رفتار کافی دھیمی تھی اور روڈ پر کھڈے ہونے کی وجہ سے کافی جھٹکے لگ رہے تھے۔ انہی جھٹکوں کی بدولت اب بار بار لیلی میم کے ممے میری کمرے سے ٹکرا رہے تھے اور جھٹکے لگنے کی وجہ سے ممے محض ٹچ نہیں ہوتے تھے بلکہ پوری طرح میری کمر کے ساتھ دب جاتے تھے۔ مگر لیلی میم اس بار نہیں بولیں کہ بائیک دھیان سے چلاو کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ بائیک پر اس طرح کے جھٹکے تو لگیں گے ہی جب روڈ خراب ہوگا لہذا وہ خاموشی سے مجھے مضبوطی سے پکڑ کر بیٹھی رہیں اور میں اپنی کمر پر لیلی میم کے مموں کو محسوس کر کے خوش ہوتا رہا۔ یہاں لیلی میم مجھے راستہ بتاتی رہیں اور کچھ دیر کے بعد لیلی میم نے ایک زیرِ تعمیر حویلی نما کوٹھی کے سامنے بائیک روکنے کے لیے مجھے کہا۔ میں نے بائیک روکی تو لیلی میم بائیک سے اتریں اور اپنے پرس میں سے ایک چابی نکال کر حویلی کے بڑے گیٹ پر لگا تالا کھولا اور گیٹ کھول کر مجھے بائیک اندر لیجانے کو کہا۔ اندر کافی بڑا کھلا گروانڈ تھا جس میں کچھ پودے لگے ہوئے تھے اورچند ایک درخت بھی تھے اور گراونڈ میں گھاس تھی۔ حویلی دیکھ کر لگ رہا تھا کہ یہاں کوئی نہیں رہتا اور چیزیں کافی بکھری ہوئی تھیں۔ لیلی میم دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر آگئیں اور میں نے بھی بائیک ایک سائیڈ پر کھڑی کر دی۔ لیلی میم کسی سے فون پر بات کر رہی تھیں اور مختصر سی بات کر کے میم نے فون بند کر دیا۔ پھر لیلی میم نے مجھے کہا کہ آو تمہیں اپنی حویلی دکھاوں۔ یہ کہ کر لیلی میم میرے آگے آگے چلنے لگیں اور میں انکی فٹنگ والی قمیص میں سے انکے 32 سائز کے ہلتے ہوئے چوتڑ دیکھ دیکھ کر اپنے لوڑے کو مسل رہا تھا۔ حویلی کی عمارت میں جا کر لیلی میم مجھے مختلف کمرے دکھانے لگیں اور انکے بارے میں بتانے لگیں کہ کس کمرے کو کس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ حویلی بہت بڑی تھی پوری حویلی دکھاتے دکھاتے لیلی میم کو 20 منٹ ہوچکے تھے اور ابھی حویلی کا پچھلا حصہ دیکھنا باقی تھا۔ اتنے میں مجھے کمرے سے باہر گراونڈ میں ایک عورت اور 2 مرد آتے دکھائی دیے۔ لیلی میم نے بھی انہیں دیکھ لیا اور مجھے لیکر انکی طرف چل پڑیں۔ یہ یہاں کام کرنے والے لوگ تھے، تعمیر کا کام تو رکا ہوا تھا مگر میم لان کی صفائی وغیرہ اور کچھ دوسرے ضرور کام ہر مہینے کرواتی تھیں۔ ان میں سے ایک مالی تھا جسکو لیلی میم نے لان کی صفائی اور پودوں کی صفائی کا حکم دیا جب کہ ایک شخص کو عورت کے ساتھ مل کر تمام کمروں کی صفائی کا کہا اور اسکے بعد مجھے حویلی کے پچھلے حصے میں لے گئیں ۔ وہاں ایک خوبصورت چھوٹا سا لان بنا ہوا تھا جس میں چند کرسیاں لگی ہوئی تھیں اور آگے ایک سائیڈ پر ایک چھوٹے سائز کا سوئمنگ پول تھا جس میں اس وقت خاصی مٹی اور پتے وغیرہ پڑے تھے ۔۔ سوئمنگ پول سے تھوڑا ہی آگے ایک ٹیوب ویل لگا ہوا تھا۔ میں نے لیلی میم سے پوچھا کہ کیا یہ ٹیوب ویل چلتا بھی ہے تو لیلی میم نے بتایا کہ ہاں یہ چلتا ہے اس سے ہم اپنی زمین میں لگی فصل کو پانی دیتے ہیں۔
میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو ٹیوب ویل کو حوض خاصا بڑا تھا اور اس میں نہانے کا یقینا مزہ آتا مگر اس میں گندہ پانی کھڑا تھا۔ جس میں نہانا ممکن نہیں تھا۔ لیلی میم نے میری بے چینی دیکھتے ہوئے پوچھا نہانے کا ارادہ ہے کیا اس میں؟؟؟ میں نے کہا جی میڈیم، آج بڑا موڈ تھا ٹیوب ویل پرنہانے کا اب سامنے ہے تو دل کر رہا ہے۔ میم نے کہا مگر اس وقت تو اسمیں پانی خاصا گندہ ہے۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ایک سائیڈ پر مجھے ایک بڑے سائز کی بالٹی رکھی نظر آئی، میں نے میم کو کہا گندہ پانی میں ابھی نکال دیتا ہوں پھر ٹیوب ویل چلا کر مزید صفائی کرکے نہا لوں گا۔ میم نے کہا تم ایک منٹ رکوں ، کرمو فارغ ہوجائے تو پھر وہ صفائی کر دے گا۔ میں نے کہا نہیں میم میں خود کر لوں گا اسکو تو بہت دیر ہوجائے گی اور پھر دھوپ بھی تیز ہوجانی تو میں کر لیتا ہوں۔ یہ کہ کر میں نے اپنی ٹی شرٹ اور بنیان اتار کر ٹیوب ویل کے پائپ پر لٹکا دیا ور کچھا اوپر کر کے بالٹی اٹھا کر ٹیوب ویل کے حوض میں گھس گیا اور وہاں سے گندا پانی بالٹی بھر بھر کر باہر نکالنے لگا۔ کچھ دیر میں جب سارا پانی باہر نکل گیا تو نیچے موجود کوڑا کرکٹ اور میل وغیر کو میں نے جھاڑو سے صاف کیا اور کافی حد تک حوض کی صفائی کر لی۔ اس دوران لیلی میم واپس حویلی کے کمروں میں جا چکی تھیں اور وہاں موجود نوکروں سے کام کروا رہی تھیں۔
میں نے ٹیوب ویل چلایا اور جب تھوڑا سا پانی ٹیوب ویل میں بھرا تو ٹیوب ویل بند کر کے دوبارہ سے حوض کا پانی نکالا تاکہ مزید گند باہر نکل جائے اور اندر تازہ اور فریش پانی رہ جائے۔ اس کام میں مجھے قریب آدھا گھنٹہ لگ گیا تھا اور مجھے خاصہ پسینہ آچکا تھا۔ مگر یہ ساری صفائی کر لینے کے بعد میں ٹیوب ویل سے باہر نکل آیا اور لیلی میم کا انتظار کرنے لگا۔ کیونکہ حوض کے آگے نکلنے والا پائپ بند تھا اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ آیا اسکو کھولنا ہے تاکہ پانی فصلوں کی طرف جا سکے یا پھر اسکو بند ہی رکھنا ہے اور فصلوں تک پانی جانے سے روکنا ہے۔ 15 منٹ کے انتظار کے بعد لیلی میم آگئیں اور پوچھا کہ تم نے نہانا شروع نہیں کیا ابھی تک؟؟؟ میں نے میم سے پانی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کھول دو ویسے بھی تم صفائی نہ بھی کرتے تو ٹیوب ویل چلا کر فصلوں کو پانی تو دینا ہی تھا۔ یہ سن کر میں نے ٹیوب ویل کے حوض سے آگے نکلنے والے پائپ کا بڑا سا ڈھکن ہٹا دیا تاکہ پانی آگے نکل سکے اور اسکے بعد پیچھے بنی چھوٹی سی کوٹھری سے ٹیوب ویل آن کر دیا۔ لیلی میم اور میں ٹیوب ویل کے بڑے پائپ سے ٹھنڈا پانی نکلتا دیکھ رہے تھے۔ میں نے میم سے نوکروں کے بارے مِں پوچھا تو میم نے بتایا کہ وہ جا چکے ہیں ۔ انکا کام پورا ہوگیا۔ اب بس ٹیوب ویل چلا کر کھیتوں تک پانی پہنچانا ہے اور پھر واپسی۔ مین نے میم سے پوچھا کہ آپ بھی نہاتی ہیں ٹیوب ویل میں؟؟؟ تو میم نے کہا ہاں جب میرے شوہر چل پھر سکتے تھے تو ہم دونوں یہاں آکر نہاتے تھے۔ میں نے کہا تو آج بھی نہائیں، بہت ٹھنڈا پانی ہوتا ہے ٹیوب ویل کا سکون مل جائے گا۔ میری بات پر میڈیم کی آنکھوں میں بے چینی کافی واضح تھی، مگر انہوں نے بے بسی سے کہا نہیں میرے سارے کپڑے خراب ہوجائیں گے۔ میں نے کہا تو آپ میرے کپڑے پہن لیں۔۔۔ میم نے کہا نہیں تمہارے بھی تو خراب ہونگے اور واپسی پر بائیک پر جانا ہے تو ٹھنڈے کپڑوں کی وجہ سے ہوا لگے گی اور نمونیا ہو سکتا ہے۔ میں نے کچھ سوچنے کے بعد کہا آپ ایسا کریں میری بنیان پہن لیں واپسی پر میں بنیان نہیں پہنوں گا ٹی شرٹ پہن کر چلا جاوں گا۔ میم نے کہا اور میری شلوار؟؟؟؟ میں نے میم کی شلوار کی طرف دیکھا اور کہا میں نے انڈر وئیر تو پہنا ہوا ہےاگر آپ چاہیں تو میری نیکر پہن سکتی ہیں۔ لیلی میم نے کہا نہیں تم رہنے دو۔ بس تم نہاو میں پھر کبھی نہا لوں گی ایکسٹرا کپڑے ساتھ لے آوں گی۔ میں نے میم پر زیادہ زور نہیں ڈالا اور ٹیوب ویل کے حوض کی طرف چلا گیا۔ وہاں جا کر میرے دل میں خیال آیا کہ کیا معلوم میم کا بھی موڈ بن جائے نہانے کا اس لیے اپنی نیکر اتار دوں۔
میں نے میم سے کہا اگر آپ برا نہ منائیں تو میں اپنی نیکر اتار دوں؟؟؟ نیچے انڈر وئیر ہے۔ میم نے کہا ہاں اتار دو اس میں پوچھنے والی کونسی بات ہے۔ میں نے فورا اپنی نیکر اتاری اور ٹیوب ویل کے حوض میں کود گیا جو اب بھر چکا تھا ، اس میں پانی کے اخراج والا سوراخ کافی اونچا تھا جسکی وجہ سے یہ بڑا حوض کافی پانی جمع کیے ہوئے تھا اور میرے پیٹ تک ٹیوب ویل میں پانی موجود تھا۔ پانی میں چھلانگ لگانے کے بعد ایک بار میں ٹیوب ویل سے نکلنے والے پانی کے نیچے سر کر کے کھڑا ہوگیا اور اپنے پورے جسم پر پانی گرنے دیا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی سر پر پڑنے سے بہت سکون مل رہا تھا۔ جب میں نے ٹیوب ویل کے نیچے سے سر ہٹا کر کچھ گہری سانسیں لیں تو میں نے دیکھا کہ لیلی میم حوض کے بالکل قریب کھڑیں تھیں اور مجھے نہاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ میں لیلی میم کے تھوڑا قریب ہوا اور اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر کپکپاتے ہوئے کہا میم بہت ٹھنڈا پانی ہے، آجائیں آپ بھی بہت مزہ آئے گا۔ میم نے مسکراتے ہوئے کہا دل تو بڑا کر رہا ہے مگر کپڑوں کا مسئلہ ہے۔ میں نے کہا میم آپ کپڑوں کی فکر نہ کریں، اپنی قمیص اتار کر میری بنیان پہن لیں اور شلوار کی جگہ میری نیکر پہن لیں اور گھبرائیں نہیں دونوں صاف ہیں میں نے آج صبح ہی یہ بنیان اور نیکر پہنی ہے۔ دھلی ہوئی ہیں۔ میم نے مسکراتے ہوئے کہا نہیں وہ بات نہیں، تمہاری بنیان تک تو ٹھیک ہے وہ میں پہن سکتی ہوں مگر تمہاری نیکر ۔۔۔۔۔ وہ تو تم نے واپسی پر لازمی پہننی ہے۔ میں نے کہا میم وہ میرا مسئلہ ہے آپ پریشان نہ ہوں، بس آپ کپڑے تبدیل کریں اور آجائیں۔ میم نے پھر سے کہا نہیں یار تمہاری نیکر خراب ہوجائے گی۔ میں نے پھر ہنستے ہوئے کہا اسکا تو پھر یہی حل ہے کہ جیسے میں انڈر وئیر میں نہا رہا ہوں آپ اپنے انڈر وئیر میں نہا لیں۔ یہ کہ کر میں نے ایک ہلکا سا قہقہ لگایا اور دوبارہ سے ٹھنڈے پانی کے نیچے اپنا سر لے گیا۔ کچھ دیر ٹھنڈا پانی سر پر دوبارہ سے ڈالنے کے بعد میں نے حوض میں ایک غوطہ لگایا اور سوئمنگ کرتے ہوئے ایک کونے سے دوسرے کونے کی طرف چلا گیا۔ حوض خاصا بڑا تھا، اسکی کم سے کم لمبائی 20 ہوگی۔ اور اتنا لمبا حوض بنوانے کا مقصد یقینا یہی ہوگا کہ میم اپنے شوہر کے ساتھ اس میں نہاتی ہونگی۔ دوسری طرف پہنچ کر میں نے ایک اور غوطہ لگایا اور واپس ٹیوب ویل سے نکلنے والے پانی کی طرف آگیا، وہاں پہنچ کر میں نے ایک بار پھر ٹیوب ویل کے نیچے اپنا سر کیا اور پھر سانس لینے کے لیے اپنا سر باہر نکالا تو میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔
حوض کے باہر لیلی میم میری بنیان پہن کر کھڑی تھیں۔ بنیان کا گلا چونکہ کافی بڑا ہوتا ہے اس لیے میری بنیان سے لیلی میم کے ابھرے ہوئے ممے واضح نظر آرہے تھے اور انکی خوبصورت کلیویج بھی بنی ہوئی تھی۔ بنیان کے نیچے میم کا کالے رنگ کا برا واضح نظر آرہا تھا۔ میرے انڈر وئیر میں لن نے ایک بار پھر سے سر اٹھا لیا تھا اور مجھے یہ سوچ سوچ کر ہی کچھ ہونے لگا تھا کہ ابھی کچھ دیر بعد لیلی میم اور میں اسی حوض میں اکٹھے نہائیں گے۔ اور میں لیلی میم کے بدن سے کھیلوں گا۔ اتنے میں مجھے ٹیوب ویل کے پائپ پر اپنی نیکر نظر آئی تو میں نے ایک دم سے لیلی میم کی ٹانگوں کی طرف دیکھا کہ اگر میری نیکر وہاں ہے تو لیلی میم نے کیا پہنا ہے۔۔۔۔ اف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا نظارہ تھا وہ جب میں نے لیلی میم کی ٹانگوں کی طرف دیکھا۔ لیلی میم نے اپنا دوپٹا اپنی ٹانگوں پر لپیٹ رکھا تھا جو بمشکل انکی گوش سے بھری ہوئی رانوں کو ڈھانپ رہا تھا۔ دوپٹے کے نیچے شاید میم نے پینٹی پہنی ہوئی تھی۔ میں بالکل سکتے کی حالت میں میم کو دیکھ رہا تھا جب مجھے میم کی آواز آئی، میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچو۔ میں ہوش میں آیا تو لیلی میم نے اپنا خوبصورت ہاتھ میری طرف بڑھایا ہوا تھا جسکو میں نے فورا ہی تھام لیا، تو میم نے اپنی ایک ٹانگ اوپر اٹھائی اور ٹیوب ویل کے حوض کی دیوار پر رکھ دی۔ دیوار خاصی اونچی ہونے کی وجہ سے میم کو کافی مشکل ہوئی اپنی ٹانگ اوپر رکھنے میں ، اور اسی وجہ سے مجھے میم کی ٹانگوں کے درمیان کا نظارہ بھی مل گیا۔ میم کی ایک ٹانگ حوض کی دیوار اور ایک نیچے زمین پر تھی اور میری نظریں میم کے دوپٹے کے درمیان میں تھی جہاں سے میم کی کالے رنگ کی پینٹی واضح نظر آرہی تھی۔
0 Comments