یہ کہانی میری امی اور اُنکے ڈھیلے ممّوں کے بارے میں ہے انکا نام ہے زبیدہ اور اُنکی عمر اس وقت 50 کے قریب ہے ،وہ ایک بھرے ہوئے جسم کے ساتھ ایک بہت ہی رسیلی عورت ہیں ،بھرا ہوا جسم بڑے مممے جنکو وہ 46 کے برا میں کس کے رکھتی ہیں ، بھرا ہوا جسم اور گندمی رنگ کے ساتھ ایک مست گھریلو عورت ہیں ،گرمی ہو یا سردی وہ برا صرف نہاتے وقت ہی اتارتی ہیں باقی ہر وقت اُنکے مممے اُنکے برا میں کسے رہتے ہیں ،اُنکے مممے کافی بڑے ہیں جنکو کس کے رکھنا اُنکی بھی مجبوری ہے,اسی لیے اُنکے مممے ہر وقت برا کی قید میں رہتے ہیں ،گرمیوں میں اُنکے مممے کھلے گلے سے چھپائے نہیں چھپتے کیوں کے گلا کھلا ہوتا ہے اور اُنکے مممے کافی بڑے ہیں جو کے برا میں کسے ہونے کی وجہ سے اوپر تنے ہوئے ہوتے ہیں جو کھلا گلا ہونے کی وجہ سے آدھے اکثر نظر آتے ہیں اور کام کرتے وقت یا جھکنے پر سارے برا سمیت آسانی سے نظر اتے ہیں یہ نظارا میرے لیے بہت مشکل ہوتا ہے لیکن میرا لن کھڑا کر دیتا ہے،اسی لیے میں بھی دل کھول کر امی کے بڑے بھاری ممّوں کا نظارا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا،جب بھی موقع لگتا میں اپنی ماں کے مممے تاڑنے لگتا اور جی بھر کے انکا نظارا کرتا لیکن آہستہ آہستہ میری ان حرکتوں کا امی کو بھی پتہ لگ گیا اور انہوں نے اپنے مممے مجھ سے چھپانے شروع کر دئیے اور یوں میرا امی کے ممّوں کو دیکھنے والا سلسلہ ختم ہو گیا اور اکثر وہ کام کرتے وقت اپنا سینا دوپٹے سے چھپا لیتیں اور مجھے کوئی موقع نہ ملتا جس سے میں اُنکے مممے تاڑ سکتا ،پھر میں نے بھی اُنکی طرف دیکھنا چھوڑ دیا اور انکو یہ تاثر دیا کے میں اُنکی طرف نہیں دیکھتا اور نہ ہی مجھے اُنکے جسم میں کوئی دلچسپی ہے،یوں کافی مہینے گزر گئے اور سردیاں آ گئیں ،ہمارے گھر کی دیوار کافی حستہ اور خراب ہو گئی تھی ایک دن امی نے مجھے بولا بیٹا دیوار گرنے والی ہے کسی مستری سے اس دیوار کو ٹھیک کرواؤ میں نے کہا ٹھیک ہے امی لیکن کس مستری کو بلاؤں امی نے کہا بیٹا مجید مستری کو ہی بلانا ہے وہی ہمارے گھر کا کام کرتا ہے جب بھی کوئی کام ہو میں نے کہا ٹھیک ہے امی، شام کو میں مستری مجید کی طرف گیا اور اسے کہا کے دیوار بنانی ہے اس نے کہا میں کام لگا ہوں لیکن جیسے ہی میرا کام ختم ہو گا میں بنا دوں گا میں نے پوچھا کب تک ،تو مستری مجید کہنے لگا اگلے ہفتے آپکا ہی کروں گا میں نے کہا ٹھیک ہے دو تین دن بعد مستری مجید نے مجھے فون کیا اور کہا کے میں صبح اؤں گا ریت اور سیمنٹ منگوا لو میں نے کہا مستری جی سب کچھ موجود ہے آپ آ جاؤ صبح،دوسرے دن میں اپنے کام پر چلا گیا اور مستری ایک مزدور لے کر آ گیا ،شام کو میں واپس آیا تو انہوں نے پرانی دیوار توڑ دی اور صبح انہوں نے دیوار بنانا شروع کرنی تھی،امی نے مجھے بتایا کہ اُنہوں نے آج کافی کام کیا ہے دو دن تک دیوار بنا دیں گے میں نے کہا ٹھیک ہے امی ،دوسرے دن میں دوپہر کو گھر ایا ،میں نے کام سے آدھے دن کی چھٹی کر لی اور گھر آ گیا تا کہ خود کام کی نگرانی کر سکوں ،دوپہر 1 کا ٹائم تھا گھر پہنچتے 2 بج گئے تھے،خیر گھر آیا تو گھر کا دروازہ بند تھا اور یہ حیرانگی والی بات تھی کیوں کے اندر مستری اور مزدور کام کر رہے تھے تو دروازہ کیوں بند ہے مجھے خیال آیا کہیں مستری مجید میری امی پر تو مزدوری نہیں کر رہا،یہ سوچتے ہی میں ساتھ والوں کے گھر سے اُنکی چھت سے ہوتا ہوا اپنے گھر آ گیا،دیوار کے پاس سارا سامان پڑا تھا لیکن مستری اور مزدور غائب تھے میرا شک اور پکا ہو گیا خیر میں آہستہ سے امی کے کمرے کے طرف بڑھا لیکن کمرے میں کوئی نہیں تھا میں کچن کی طرف گیا تو مجھے آوازیں آئیں میں نے سمجھا لگتا ہے مستری اور مزدور کھانا کھا رہے ہیں خیر میں پھر بھی آہستہ سے کچن کی طرف گیا اور کھڑکی سے اندر جھانکا تو میرا شک یقین میں بدل چکا تھا،کیوں کے میری امی فرش پر گھوڑی بنی ہوئی تھی،شلوار اتری ہوئی تھی اور قمیض کندھوں تک اوپر تھی اور مممے برا سے نکلے ہوئے تھے اور جھول رہے
تھے،مستری مجید پیچھے سے امی کو چود رہا تھا تھا جب کے مزدور لن نکال کے امی کے منہ کے سامنے کھڑا تھا اور امی اُسکے لن کو چوم رہی تھی اور کبھی چومتی تو وہ امی کی گالوں کے اوپر رگڑتا اور لن کی ٹوپی امی کی طرف کر دیتا تھا جسے امی چوم رہی تھی،یہ منظر دیکھ کر میرے چودہ طبق روشن ہو گئے ،میری ماں دن کے وقت مستری اور مزدور سے چدوا رہی تھی ،پہلے تو میں نے سوچا کہ دونوں کو جوتیاں مار کے گھر سے نکالتا ہوں لیکن ایک سوچ نے مجھے روک دیا کے اگر مستری اور مزدور امی کو چود سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں،میرے والد 10 سال پہلے بیماری کی وجہ سے وفات پا چکے تھے،اور اُسکے بعد امی ایک بیوہ کی زندگی گزار رہی تھیں،اور میں نے کبھی بھی انکو ایسی کوئی حرکت کرتے نہیں دیکھا تھا لیکن آج یہ منظر دیکھ کر مجھے پتہ چل گیا کے میری امی کو چدائی کی ضرورت تھی اور اُنکے اندر کی عورت
اب بھی جوان اور زندہ تھی،خیر میں امی کی چدائی دیکھنے لگا مستری مجید زور زور سے امی کی چدائی کر رہا تھا اور مزدور لن امی کے منہ پر رگڑ رہا تھا،مستری مجید کی عمر اس وقت 40 کے قریب ہو گی اور مزدور کوئی 30 سال کا ،خیر امی مزے سے گھوڑی بنے چدوا رہی تھی،مستری نے امی کے کولہے پکڑے ہوئے تھے اور جھٹکے مار رہے تھا وہ جیسے ہی جھٹکا مارتا تھپ کی آواز نکلتی جیسے ہی تیزی سے جھٹکے مارتا تو تھپ تھپ ہونے لگتی یہ آوازیں مجھے مدہوش کر رہی تھیں اور میں اپنی ہی امی کو چدتا دیکھ کر مزے لے رہا تھا خیر مستری مجید امی کی چُوت کے اَندر ہی فارغ ہو گیا اور مزدور کو بولا آ جا لیکن جلدی کر کام بھی کرنا ہے ،امی کی چُوت مستری کے سفید پانی سے بھر گئی تھی امی نے ایک کپڑے سے اپنی چُوت صاف کی اور مزدور کے لیے پھر گھوڑی بن گئی،مزدور کا لن کوئی 7 انچ لمبا ہو گا اس نے ایک ہی جھٹکے سے سارا لن میری ماں کی پُھدی میں اُتار دیا تھا اور امی کی اہ نکل گئی اور آنکھیں بند کر کے چدنے لگی مزدور نے امی کے جھولتے ہوئے بڑے مممے پکڑ لیے اور جھٹکے مارنے لگا ،اُسکے جھٹکوں سے بھی تھپ تھپ کی آوازیں آ رہی تھیں مستری مجید سگریٹ لگا کے بیٹھ گیا اور اُنکی طرف دیکھنے لگا،جیسے ہی مزدور امی کی چُوت میں فارغ ہوا میں واپس اسی راستے جس سے آیا تھا باہر گلی میں آ گیا اور آ کے دروازہ کھٹکھایا مستری مجید نے دروازہ کھولا مزدور بھی اتنی دیر میں باہر آ چکا تھا لیکن امی کچن میں ہی تھیں ،سلام دعا کے بعد میں نے کام کا پوچھا اور مستری کہنے لگا بس لگے ہوئے ہیں جلدی ہی ختم ہو جائے گا, میں نے دل میں کہا میری ماں کی پُھدی میں لگے ہوئے تھے یا کام میں لگے ہوئے تھے ، خیر میں امی کی طرف گیا اور سلام کیا امی نے کہا بیٹا آج جلدی آ گئے میں نے کہا ہاں آج آدھی چھٹی لے لی امی نے کہا ٹھیک ہے بیٹا کھانا کھا لو ،اس دن کے بعد اب میرے دل میں امی کو چودنے کی خواہش بڑھ گئی تھی اور میں ہر وقت یہی سوچتا رہتا کے کیسے امی کی چدائی کرو ،خیر کُچھ دنوں بعد مجھے 3 چھٹیاں ملیں اور امی نے کہا بیٹا لاہور چلتے ہیں میں نے داتا دربار سلام کرنا ہے،میں بھی فارغ تھا میں نے سوچا چلو اسی بہانے لاہور گھوم آتے ہیں ،میں نے امی سے کہا ٹھیک ہے امی چلتے ہیں،اگلے دن ہم لاہور آ گئے اور سلام کر کے اور گھوم پھر کے ہوٹل میں آ گئے جہاں ہم نے رات گزارنی تھی,ہوٹل میں آ کے نہا کے کھانا کھایا اور لیٹ گئے امی نے ایک مہندی رنگ کی شلوار قیض پہنی تھی اور میرے ساتھ ہی بیڈ پر لیٹی تھیں،باتوں باتوں میں ،میں نے امی سے پوچھا امی آپکو ابو کی کمی محسوس ہوتی ہے امی کہنے لگیں ہاں بیٹا بہت كمی ہوتی ہے، ہر عورت کے لیے اسکا شوہر ہی اسکا سب کچھ ہوتا ہے ،میں نے امی سے پوچھا امی آپ اور ابو نے بس ایک ہی اولاد پیدا کی زیادہ کیوں نہیں،امی کہنے لگیں بیٹا تیری پیدائش کے بعد تیرے ابو بیمار ہو گئے تھے اور اُسکے بعد وہ اس قابل نہیں رہے تھے اس لیے،میں نے پوچھا امی پھر آپ نے یہ سارا وقت کیسے گزارا،امی نے سوچتے ہوئے کہا بیٹا وقت گزار ہی لیا ،اور تیرا بھی بہت آسرا تھا مجھے ،اگر تم نہ ہوتے تو میرا وقت بہت مشکل کٹتا،لیکن تم ہو تو مجھے کوئی غم نہیں, میں نے کہا امی پھر بھی عورت کو ایک مرد کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر مرد نہ ہو تو عورت مجبور ہو جاتی ہے کسی اور مرد کی طرف دیکھنے کو ،یہ میں نے اندھیرے میں تیر چلایا تھا ،امی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا بیٹا وہ اور عورتیں ہیں جو دوسرے مردوں کو دیکھتی ہیں میں نے کبھی اپنے شوہر کے علاوہ کسی مرد کا سوچا بھی نہیں اور نہ ہی مجھے ضرورت ہے،یہ سفید جھوٹ تھا جو امی بول رہی تھیں،میں نے امی سے کہا امی آپ بھی عورت ہیں آپکی بھی ضرورت ہے میں سمجھتا ہوں ،یہ ایک قدرتی عمل ہے ،عورت کو مرد کی اور مرد کو عورت کی ضرورت ہوتی ہے ،امی کہنے لگیں بیٹا یہ بات تو سچ ہے لیکن میں کیا کرتی تیرے ابو تو بہت پہلے ہی بیمار ہو گئے تھے میری زنگی اُنکے بغیر بڑی مشکل سے کٹی،میں نے کہا امی میں سمجھ سکتا ہوں لیکن امی آپ نے بھی صبر نہیں کیا،امی اٹھ کے بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں کیا مطلب صبر نہیں کیا،میں نے کہا امی آپ مستری مجید کے آگے جھکیں ہوئی تھیں جب میں نے آپکو کچن میں دیکھا تھا ،یہ سن کر امی کا رنگ ایک دم پھیکا پڑھ گیا اُنہوں نے آہستہ سے پوچھا بیٹا تمہیں کیسے پتہ چلا،میں نے کہا امی میں نے خود دیکھا تھا آپکو دونوں کے ساتھ ،امی کے چہرے پہ شرمندگی اور پریشانی صاف ظاہر تھی ،امی نے کہا بیٹا تم نے اس وقت کچھ بولا کیوں نہیں،میں نے کہا امی میں بھی ایک مرد ہوں مجھے پتہ ہے عورت کو مرد کی ضرورت ہوتی ہے اور مرد کو عورت کو ،جذبات کے ہاتھوں انسان مجبور ہو جاتا ہے،آپ نے یہ جان بوجھ کر نہیں کیا آپ بھی اپنی جسمانی خواہشات کے ہاتھوں مجبور تھیں اس لیے میں نے دیکھا اور واپس چلا گیا اور کچھ نہیں بولا ،امی ہاتھ جوڑتے ہوئے کہنے لگیں بیٹا مجھے معاف کر دو مجھ سے غلطی ہو گئی آئندہ میں کبھی ایسا نہیں
کروں گا ،میں نے کہا امی کوئی بات نہیں یہ انسانی ضرورت ہے میں سمجھتا ہوں ،امی آپ بھی بہت خوبصورت عورت ہیں کوئی بھی مرد آپکو انکار نہیں کر سکتا وہ مرد بہت خوش قسمت ہو گا جسکو آپ جیسی عورت اپنے ساتھ یہ موقع دے ،امی اب تھوڑا مطمئن ہو گئیں تھیں اور کہنے لگیں ہاں بیٹا میں ہر مرد کو گھاس نہیں ڈالتی ،لیکن یہ مجید شروع سے ہی میرا بڑا تابعدار ہے اس لیے میں نے اُسکے ساتھ کیا اور پہلے بھی کئی بار کر چکی ہوں،امی اب فری اور اطمینان سے بات کر رہی تھیں،میں نے کہا اچھا جی مستری مجید کافی عرصے سے میری امی کے مزے لے رہا ہے ،امی نے ہنستے ہوئے کہا چپ بیشرم اور زور سے ہنسنے لگیں،میں نے لوہا گرم سمجھتے ہوئے کہا امی اس دن تو مجید مستری کا مزدور بھی ساتھ تھا آپ دونوں کے ساتھ کر رہی تھیں،امی نے کہا ہاں مجید نے مجھے اسکا کا بولا تھا کے یہ بھی میری طرح آپکا راز رکھے گا اور یہ بات صرف ہمارے بیچ رہے گی ،اس لیے میں نے مزدور کو بھی دے دی ،امی نے یہ سوچے بغیر بول دیا تھا ،میں نے ہنستے ہوئے کہا امی کیا دے دی ,امی کو اب خیال آیا کے اُنہوں نے کیا بول دیا امی شرما گئیں اور کہنے لگیں شرم نہیں آتی عدنان اپنی ماں کو شرمندہ کرتے ہوئے اور مجھے پتہ ہے تو بھی میری چھاتی کو دیکھتا تھا بیشرم شرم نہیں آتی ،میں نے کہا امی آپکی چھاتی ہے ہی اتنی پیاری کہ میں خود کو روک نہیں پاتا تھا اور جب آپکے مممے قمیض کے گلے سے نظر آتے تھے تو میں پاگل ہو جاتا تھا،امی ہنستے ہوئے کہنے لگیں بیشرم جن سے دودھ پی کے بڑ ا ہوا ہے اُنھیں ہی حوس سے دیکھتا ہے میں نے کہا امی مجھے معاف کے دیں غلطی ہو گئی امی کہنے لگیں بیٹا کوئی بات نہیں سب مردوں کو میرے مممے بہت اچھے لگتے ہیں مجھے پتہ ہے وہ میرے مممے گھورتے ہیں اگر تم دیکھتے ہو تو کیا ہے تم میرے بیٹے ہو ،امی اب پوری طرح اطمنان اور خوشی سے باتیں کر رہی تھیں،میں نے ایک اور چھکا مارتے ہوئے کہا امی میں نے تو آپکو ننگا بھی دیکھا اور وہ بھی دو مردوں کو دیتے ہوئے،امی کہنے لگیں کیا دیتے ہوئے،میں نے کہا امی آپکی پُھدی اور کیا امی ہنسنتے ہوئے کہنے لگیں بہت بیشرم ہو تم ،میں نے کہا امی پُھدی کو پُھدی ہی بولیں گے اور کیا ،امی نے بولا ہاں یہ تو ہے ،میں نے کہا امی میں نے آپکے مممے تو اس دن دیکھ لیے لیکن آپکی پُھدی نہیں دیکھ پایا، یہ میرا آخری پتہ تھا اسی پتے پر سب کچھ تھا اگر یہ لگ جاتا تو سمجھو بازی میری ،امی کہنے لگیں بیٹا مممے میرے تو بہت بار تم نے دیکھے ہیں ہاں لیکن میری پُھدی نہیں دیکھی ،اپنی ماں کے منہ سے لفظ پُھدی سن کر میرا لن مچل گیا اور اٹھنا شروع ہو گیا ،امی بھی آہستہ آہستہ کھل رہیں تھیں اور جذبات میں بہہ رہی تھیں،میں نے کہا امی خوش قسمت ہے وہ مرد جس نے آپکی پُھدی ماری ہے ،امی نے کہا ہاں بیٹا جس جس نے بھی میری پھدی ماری ہے اس نے یہی کہا ہے کہ خوش قسمت ہوں جو آپ جیسی گھریلو عورت چودنے کو ملی،میں نے امی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا امی آپ نے کسی سے پیسے بھی لیئے یا نہیں،امی کہنے لگیں بیٹا میں اپنی پُھدی فری میں کیوں دوں ہاں میں پیسے لیتی ہوں لیکن زیادہ پیسے لیتی ہوں تا کہ وہی میری پُھدی مار سکے جسے میری قدر ہے مفت میں کیوں بانٹوں اپنی پُھدی اور عزت ،میں نے امی کے قریب ہوتے ہوئے کہا امی آپ بھی تو مزہ لیتی ہیں چاہے پیسے لے کے،امی نے کہا بیٹا مفت کی چیز کی کوئی قدر اور عزت نہیں ہوتی اس لیئے،میں نے کہا امی اگر آپکا بیٹا آپکی پُھدی مارنا چاہے تو آپ پیسے لیں گی ،امی نے مجھے ہلکا سا تھپڑ مارتے ہوئے کہا چل بدمعاش میں تیری ماں ہوں، تجھ سے پیسے تھوڑے ہی لوں گی،یہ سیدھی سیدھی اجازت تھی کے امی راضی ہیں ،میں نے بنا کوئی موقع ضائع کیے بغیر امی کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے امی نے میرا ساتھ دیا اور میرے ہونٹ چوسنے لگیں امی کے منہ میں منہ ڈال کر چوسنے کا مزہ کا الگ تھا اب یہ وہی سمجھ سکتا ہے جس نے یہ کیا ہے،امی نے مجھے کہا بیٹا میرے کپڑے اُتار دو امی نے بازو اوپر کیا میں اُنکی قمیض اُتار دی اور حسبِ معمول انکا برا اُنکے بھاری ممّوں کو کسے ہوئے تھا،میں نے پیچھے سے انکا برا بھی کھول دیا،جیسے ہی برا کھلا امی کے مممے نیچے آ گئے اور جھولنے لگے ،جیسے ہی میں نے امی کے مممے پکڑے تو امی کہنے لگیں بیٹا ماں سمجھ کر میرا لحاظ مت کرنا بلکہ ایک عورت کی طرح مجھے اور میرے جسم کو استمعال کرو اور صحیح بیدردی سے میری چُوت مارو کے مجھے مزہ آ جائے ،میں نے امی کے مممے زور سے دباتے ہوئے کہا امی آپ فکر نہ کریں میں آپکو ماں ہونے کی کوئی رعایت نہیں دوں گا ،امی نیچے لیٹ گئیں اور میں نے اُنکے مممے مسلنے ،دبانے ،دبوچنے ،نوچنے ،کھینچنے اور رگڑنے لگا اُن کے منہ سے ہلکی سسکیاں نکلنے لگیں میں اُنکے مممے اپنے پورے زور سے مسل رہا تھا امی کو مزہ آ رہا تھا میں کبھی اُنکے مممے کھینچتا اور کبھی اُنکے موٹے نپلز کو اپنے انگوٹھوں سے رگڑتا ،مجھے بہت مزا آ رہا تھا جن ممّوں کو پی کے اور دیکھ دیکھ کے میں جوان
ہوا تھا آج میرے ہاتھوں میں ننگے میرے سامنے تھے،میں اپنی ساری حسرت آج نکالنا چاہتا تھا،اسی لیئے میں اپنی ماں کے مممے بڑے زور اور بیدردی سے مسل رہا تھا،کافی دیر بعد جب امی کے مممے سرخ ہو گئے تو میں نیچے کی طرف گیا اور اُنکی لاسٹک والی شلوار کو اتارنا چاہا اُنہوں نے اپنی گانڈ اٹھائی اور میں نے اُنکی شلوار اتار دی امی اب بلکل ننگی میرے سامنے لیٹی ہوئی تھیں،اُنکی بھری ہوئی گوری رانیں اور ایک بھاری چوڑی بھری ہوئی کالے بالوں والی پُھدی میرے سامنے تھی ،بال تھوڑے بڑے تھے جس کی وجہ سے اُنکی پُھدی بالوں کے نیچے ڈھکی ہوئی تھی،میں امی کے ہونٹوں پے کس کرتے ہوئے کہا امی آپکی پُھدی تو جنگل بنی ہوئی ہے،امی نے آہستہ سے کہا مجھے پتہ ہی نہیں تھا کے میں اپنے بیٹے سے چدنے والی ہوں نئی تو میں جنگل صاف کر لیتی اب جیسی بھی ہے کام چلاو گھر جاتے ہی میں صاف کر لوں گی،میں نے کہا ٹھیک ہے امی ،میں امی کی گردن سے اُنکے جسم کو چاٹتے ہوئی اُنکی رانوں پر آ گیا جیسے ہی میری زبان اُنکی ران کو لگی اُنہوں نے اپنی ٹانگیں کھول دیں،میں اُنکی چُوت بھی چاٹنا چاہتا تھا لیکن بالوں کی وجہ سے میں نے اُنکی پُھدی کے ہونٹ کھولے اور اپنی زبان اندر ڈال دی اور اوپر سے نیچے چوسنے اور چاٹنے لگ گیا،امی کے منہ سے سسکیاں تیزی سے نکلنے لگیں وہ اپنی ٹانگوں کو ہلانے لگیں میں اور تیزی سے اپنی زبان اُنکی پُھدی میں پھیرنے لگا وہ اور زیادہ مچلنے لگیں،تھوڑی دیر چوسنے کے بعد میں نے اپنے کپڑے اتارے اور لن امی کے ہاتھ میں دے دیا جسے وہ مسلنے لگیں اُنکے ہاتھ لگتے ہی میرا لن اور تن گیا اور مچلنے لگا میں نے امی کا سر پکڑ کے لن کی طرف دبایا امی نے اپنا منہ کھول کے لن اندر لے لیا اور چوسنے لگیں،لن چسوانا اور وہ بھی اپنی ماں سے ،میں مزے کی ایک عجیب دنیا میں تھا اور امی بھی بہت نفاست سے میرا 8 انچ کا لن چوس رہی تھیں،مجھے بہت زیادہ مزہ آ رہا تھا،تھوڑی دیر چوسنے کے بعد امی کہنے لگیں بیٹا مجھ سے اور صبر نہیں ہوتا یہ موٹا لن سارا ایک ہی جھٹکے میں میری پُھدی میں ڈال دو،امی نے لیٹ کے ٹانگیں اٹھا لیں میں نے لن امی کی پُھدی پہ سیٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں سارا لن اُنکی پُھدی میں اُتار دیا،اُنکی پُھدی بہت زیادہ گیلی تھی کیوں کے چوسنے کی وجہ اور اپنے پانی سے اُنکی پُھدی بہت زیادہ گیلی اور چکنی ہو گئی تھی اسی لیے میرا لن آسانی سے اُنکی پُھدی کے آر پار ہو گیا،پک کی آواز کے ساتھ لن امی کی چُوت میں اتر گیا ،میں رک گیا اور امی سے کہنے لگا امی آپکی چُوت میں جو سرور اور لذت مجھے ملی ہے کسی عورت کی چُوت میں نہیں ملی امی نے آنکھیں کھول کر کہا بیٹا میں نے بھی بہت لن لیئے لیکن ایسا مزہ اور نشہ مجھے کسی لن نے نہیں دیا بیٹا مار میری پھدی اور اسکا کچومر نکال دے بیٹا،میں نے لن نکالا اور ایک اور زوردار جھٹکے سے سارا لن پھر ڈال دیا اور جھٹکے مارنے لگا ،امی کے مممے ہر جھٹکے پر جھول رہے تھے اور مجھے دیکھ کر بہت ہی مزہ آ رہا تھا،امی بھی ہر جھٹکے پر اہ اہ ائی ائی کر رہی تھیں ،لن روانی اور آسانی سے پک پک کی آواز کے ساتھ امی کی پُھدی میں جا رہا تھا اُنکی پُھدی بہت ہی زیادہ گرم تھی جس سے مجھے اور بھی زیادہ مزہ آ رہا تھا ،میں نے اُنکے جھولتے ہوئے مممے پکڑ لیے اور جھٹکے مارنے لگا امی کہنے لگیں بیٹا زور سے مسلو میرے مممے زور سے کھینچو میرے بڑے مممے میں پورے زور سے اُنکے مممے مسلنے لگا اور امی کی چدائی جاری رکھی ،امی کے منہ سے اہ اہ بہت تیزی سے نکلنے لگی اُنکے مممے سرخ ہو چکے تھے لیکن وہ آنکھیں بند کرکے اپنے بیٹے سے مزے سے چدوا رہی تھیں ،میں رکا لن نکالا اور امی کو الٹا لٹا لیا اُنکی موٹی گانڈ اب اوپر نکل ائی تھی میں نے اُنکی ٹانگیں کھول کے لن پُھدی پر رکھا اور جھٹکے سے لن پھر اُنکی پُھدی میں ڈال دیا ،اس جگہ پر لن پورا نہیں جا رہا تھا لیکن مجھے بہت زیادہ مزہ ضرور آ رہا تھا آخری جھٹکوں پر تھپ تھپ کی اور امی کی اہیں پورے کمرے میں گونج رہی تھیں میں نے امی کو بتا دیا میں فارغ ہونے والا ہوں،امی نے کہا بیٹا میں بھی فارغ ہونے والی ہوں آخری جھٹکے اور زور سے مارو میری پھدی میں،زوردار جھٹکے اور اس گرم چُوت میں،میں زیادہ دیر ٹک نہ پایا اور لن کا سارا پانی اپنی ماں کی پُھدی میں نکال دیا،امی بھی جھٹکوں سے فارغ ہو گئیں اور اونچی اونچی سانسیں لینے لگیں،میں فارغ ہو کے سائڈ پر گر گیا اور سانس لینے لگا،امی کہنے لگیں ہاں عدنان کیسی ہے میری چُوت مزہ ایا اپنی ماں کو چودنے کا میں نے کہا امی میں بتا نہیں سکتا کتنا مزہ آیا ہے آپکی پُھدی میں،بہت ہی گرم اور مضبوط پُھدی ہے آپکی،امی مجھے پیار سے کہنے لگیں بیٹا آج کے بعد یہ چُوت تیری ہے کسی اور کو نہیں دوں گی
ختم شُد
0 Comments