Bra Wali Shop Episode 22,23

بریزر والی شاپ
قسط 22

 

ادھر فون پر میری ملیحہ سے کافی گپ شپ شروع ہوچکی تھی روزانہ ہی رات کے 11 بجتے تو ملیحہ مجھے ایس ایم ایس کے ذریعے کال کرنے کا کہ دیتی۔ ہم دونوں میں اب کافی کھل کر بات ہوتی تھی اور یہاں تک کہ فون پر ہی میں ملیحہ سے اسکے مموں کا سائز بھی پوچھ چکا تھا اور سیکس کے بارے میں بھی ہماری بات چیت ہوئی تھی۔ پھر ایک دن جب ملیحہ رافعہ کے ساتھ میری دکان پر آئی تو میں نے ملیحہ کو اپنی پسند کا ایک برا دکھایا۔ ملیحہ رافعہ کے سامنے تھوڑی شرما رہی تھی مگر رافعہ اسے کہنے لگی لے لو آپی، مفت میں جو چیز بھی ملے لے لینی چاہیے۔ میں نے ملیحہ کو کہا شرماو نہیں آپ ٹرائی روم میں جا کر فٹنگ وغیرہ چیک کر لو۔ ملیحہ تھوڑا ہچکچائی کیونکہ میں اسے فون پر ہی بتا چکا تھا کہ میرے ٹرائی روم میں ایک کیمرہ لگا ہوا ہے اور وہ جانتی تھی کہ میں کسی اور کو بے شک نہ دیکھوں مگر ملیحہ کو تو ضرور دیکھوں گا برا تبدیل کرتے ہوئے آخر وہ میری منگیتر تھی میں اسکے ممے نہیں دیکھوں گا تو بھلا اور کون دیکھے گا۔ میرے زور دینے پر ملیحہ ٹرائی روم میں چلی گئی اور رافعہ بھی اسکے ساتھ چلی گئی۔ ادھر ملیحہ نے ٹرائی روم کا دروازہ بند کیا تو ادھر میں نے اپنی کمپیوٹر سکرین آن کر لی اور کیمرہ آن کر کے اندر کا منظر دیکھنے لگا۔ ملیحہ تھوڑا شرما رہی تھی جبکہ رافعہ اسکے ساتھ ہی کھڑی تھی اور شاید اسے جلدی ٹرائی کرنے کا کہ رہی تھی۔ ملیحہ نے شرماتے شرماتے اپنی قمیص اتاری۔ نیچے اس نے شمیص نہیں پہنی تھی سرخ رنگ کا ایک برا تھا جو ملیحہ کے 36 سائز کے مموں پر بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ ملیحہ کی خوبصورت گہری کلیویج برا میں سے نظر آئی تو میرا ہاتھ خود بخود اپنے لن کی طرف بڑھنے لگا اور اسکو پکڑ کر جھٹکے مارنے لگا۔ ملیحہ چور نظروں کے ساتھ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی کہ شاید اسکو کہیں کیمرہ نظر آجائے، مگر میں نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ کیمرا سامنے نہیں بلکہ اوپر چھت میں لگا ہوا ہے۔ جہاں سے مجھے ملیحہ کی خوبصورت کلیویج بہت واضح نظر آرہی تھی۔ 

پھر ملیحہ نے اپنا برا اتارا تو اسکے 36 سائز کے خوبصورت گورے چٹے گول ممے دیکھ کر میرا لن اور بھی تگڑا ہوگیا۔ ملیحہ کا پورا جسم بہت خوبصورت اور بے داغ تھا۔ اسکے بڑے بڑے ممے اور بغیر چربی کے پیٹ دیکھ کر میرا دل خوش ہوگیا تھا کہ مجھے اتنی خوبصورت اور حسین بیوی ملنے والی ہے۔ بحر حال پھر ملیحہ نے میرا دیا ہوا برا پہنا جو اس پر بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ گورے جسم پر کالے رنگ کا برا ہمیشہ ہی اچھا لگتا ہے۔ اچھی طرح فٹنگ چیک کرنے کے بعد جب ملیحہ برا اتارنے لگی تو میں نے باہر سے ہی آواز لگائی کہ ملیحہ اگر فٹنگ صحیح ہو تو یہی برا پہن کے آجانا، تبدیل نا کرنا۔ میری بات سن کر ملیحہ جو برا اتارنے ک لیے اسکی ہُک کھول چکی تھی اس نے دوبارہ ہُک بند کر کے قمیص پہنی اور رافعہ کے ساتھ باہر آگئی۔ باہر آئی تو اسکا چہرہ شرم سے سرخ ہورہا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ میں نے اسے بغیر برا کے بھی دیکھ لیا ہے اور برا پہنے ہوئے بھی دیکھ لیا ہے۔ میں نے ملیحہ سے پوچھا کیسا لگا آپکو یہ برا تو ملیحہ نے کہا بہت اچھا ہے۔ اور پھر ہم باتیں کرنے لگے کچھ دیر میں رافعہ ہم سے کچھ دور ہوکر کھڑی ہوگئی اور جیولری دیکھنے لگی تو میں نے ملیحہ سے کہا یار ملیحہ تم تو قیامت ہو، کیا خوبصورت بدن ہے تمہارا۔ یہ سن کر ملیحہ کا چہرہ انار کی طرح سرخ ہوگیا اور اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا کہے میری بات کے جواب میں ۔ پھر میں نے اسے کہا تمہارا سینہ بھی بہت خوبصورت ہے میرا تو دل کر رہا تھا کہ تم برا پہنو ہی نا ایسے ہی کھڑی رہو۔ ملیحہ نے کہا آہستہ بولیں رافعہ نہ سن لے۔ پھر ملیحہ مجھے کہنے لگی کہ اپ دوسری لڑکیوں کو بھی دیکھتے ہو کیمرے میں؟ میں نے ملیحہ کو بتایا کہ عام لڑکیوں کو تو نہیں دیکھتا لین اگر کبھی 2 لڑکیاں اندر جائیں اور مجھے شک ہو کہ وہ کوئی غلط حرکت کر رہی ہیں اندر تو دیکھتا ہوں کیمرے میں اور اگر کبھی کوئی لڑکی اپنے بوائے فرینڈ یا شوہر کے ساتھ جائے تب بھی ضرور دیکھتا ہوں کہ کہیں وہ اندر ہی شروع نہ ہاجائیں۔ میرے جواب پر ملیحہ مطمئن ہوگئی تو میں نے رافعہ کو کہا کہ رافعہ اب ملیحہ کو گفٹ دیا ہے تو تمہیں بھی دینا چاہیے، تم بھی کیا یاد کرو گی یہ لو تم بھی ایک برا لے لو مفت میں۔ یہ کہ کر میں نے 34 سائز کا برا نکالا اور رافعہ کو دے دیا۔ رافعہ نے کہا نہیں میرے پاس تو ابھی پڑے ہیں مجھے نہیں چاہیے۔ میں نے کہا تو پاگل لڑکی میں کونسا پیسے لے رہا ہوں تم سے۔ رکھ لو اور ٹرائی روم میں چیک کر لو۔ رافعہ نے میرے ہاتھ سے برا پکڑا اور ملیحہ کو لے جانے لگی ٹرائی روم میں تو میں نے رافعہ کو کہا یہ ظلم نہ کرو اس بیچاری کو تو میرے پاس رہنے دو۔ میری بات سن کر رافعہ ہنسی اور بولی اچھا لگ گئی ہے مجھے سمجھ کہ کس لیے مجھ پر اتنے مہربان ہورہے ہو، مقصد گفٹ دینا نہیں بلکہ مجھے سائیڈ پر بھیجنا ہے تاکہ آپی کو اور آپکو تنہائی میسر ہوسکے۔ یہ کہ کر رافعہ نے ملیحہ کی طرف دیکھ کر آںکھ ماری اور بولی آُپی تم بھی کیا یاد کرو گی، عیش کرو میں جیجا جی کا دیا ہوا برا ٹرائی کر آوں۔ یہ کہ کر رافعہ وہاں سے چلی گئی۔ جیسے ہی رافعہ نے ٹرائی روم کا دروازہ بند کیا میں ایک دم سے کاونٹر سے باہر نکلا اور ملیحہ کو زور سے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا۔ دکان کا دروازہ تو میں پہلے ہی لاک کر چکا تھا، ملیحہ کو اپنی بانہوں میں لیتے ہی میں نے اسکے خوبصورت ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور انکو چوسنا شروع کر دیا۔ ملیحہ میرے اس حملے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی اس لیے شروع میں اس نے اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کی اور ہلکی آواز میں بولی نہ کریں پلیز، مگر پھر اسے احساس ہوا کہ وہ کسی غیر کی بانہوں میں نہیں بلکہ اپنے منگیتر کی بانہوں میں ہے تو اس نے مزاحمت ترک کر دیے اور وہ بھی کسنگ کرنے لگی۔ اسکے ہونٹ بہت ملائم اور رسیلے تھے اور مجھے پہلی بار کسی لڑکی کے ہونٹ چوسنے کا اتنا مزہ آرہا تھا، اسکی وجہ شاید اپنایت تھی۔ کچھ دیر تک اسکے ہونٹ چوسنے کے بعد میں نے اسکے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ اٹھائے اور اس سے پوچھا کیسا لگا ملیحہ۔ ملیحہ کی آنکھوں میں نشہ تھا اور وہ مدہوش ہورہی تھی وہ کچھ نہ بولی اور شرم کے مارے اپنی آنکھیں نیچے جھکا لیں۔ پھر میں نے ملیحہ کے ایک ممے کو پکڑ کر دبا دیا اور کہا مجھے اپنا برا تو دکھاو۔ ملیحہ نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھا مگر میرے ہاتھ کو اپنے ممے سے ہٹانے کی کوشش نہیں کی اور بولی آپ دیکھ تو چکے ہیں یہ۔ میں نے ملیحہ کو کہا نہیں وہ تو کمپیوٹر پر دیکھے ہیں، مگر میں تو اپنے سامنے اپنی آںکھوں سے تمہارے اس خوبصورت سینے کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ کہ کر میں نے ملیحہ کی قمیص اور اٹھائی اور جیسے ہی ملیحہ کی قمیص اسکے مموں تک پہنچی اس نے مجھے روک دیا اور بولی پلیز۔۔۔۔ مجھے شرم آتی ہے۔ میں نے اسکے ہونٹوں پر ایک پیار بھرا بوسہ دیا اور بولا ارے مجھ سے کیسی شرم، اور ویسے بھی فون پر تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اپنا خوبصورت بدن مجھے ضرور دکھاو گی تو اب تو میں دیکھ کر ہی رہوں گا۔ 

یہ کہ کر میں نے ملیحہ کی قمیص اسکے مموں سے اوپر اٹھا دی اور نیچے کالے رنگ کے برا میں ملیحہ کے اٹھے ہوئے گورے ممے دیکھے تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ پھر کچھ دیر بعد میں ان پر جھکا اور ایک ہاتھ سے اسکے ممے کو پکڑ کر اس پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسے چومنے لگا۔ ملیحہ کا پورا جسم شرم کے مارے کانپ رہا تھا مگر وہ مجھے روک نہیں رہی تھی ۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ فون پر ہم کافی سیکسی سیکسی باتیں کرتے رہتے تھے اور باتوں ہی باتوں میں ہم مکمل سیکس کر چکے تھے۔ میں بہت پیار کے ساتھ ملیحہ کے ممے چوس رہا تھا کہ پھر اچانک ملیحہ نے مجھے منع کر دیا اور بولی بس کریں پلیز مجھے بہت شرم آرہی ہے۔ میں نے کہا نہیں میری جان، مجھ سے کیسی شرم، اور ابھی تو میں نے تمہارے یہ خوبصورت گول ممے صحیح طرح سے دیکھے ہی نہیں۔ ابھی تو انکو برا کی قید سے آزاد کر کے دیکھنا ہے۔ یہ کہ کر میں نے ملیحہ کے ایک ممے سے برا ہٹانا ہی چاہا تھا کہ ٹرائی روم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی رافعہ کی آواز آئی کہ میں آرہی ہوں۔ یہ سنتے ہی مجھے اور ملیحہ کو ایک کرنٹ لگا اور میں ملیحہ سے دور ہوکر کھڑا ہوگیا جب کہ ملیحہ نے بھی اپنی قمیص نیچے کر لی مگر اسکی تیز تیز سانسیں ابھی چل رہی تھیں۔ تبھی رافعہ بھی واپس آگئی اور ہنستے ہوئے کہنے لگی سوری میں آپ دونوں کو زیادہ ٹائم نہیں دے سکی۔ میں نے اپنے کھڑے لن کو ٹانگوں میں دبانے کے بعد کہا ارے نہیں سالی صاحبہ، ایسی کوئی بات نہیں آپ کے سامنے بھی ہمیں ملنے میں کوئی شرم نہیں، کیوں ملیحہ ٹھیک کہ رہا ہوں نا میں؟؟ میری بات سن کر ملیحہ نے کہا ہاں تو اور پہلے بھی رافعہ کے سامنے ہی باتیں کر رہے تھے۔ مگر اندر سے ہم دونوں جانتے تھے کہ رافعہ کی غیر موجودگی میں ہم نے جو حرکت کی وہ اسکی موجودگی میں نہیں ہوسکتی تھی۔ اسکے بعد میں نے رافعہ سے پوچھا تم بتاو برا صحیح ہے تمہارے؟ رافعہ نے کہا آپ برا دو اور اسکی فٹنگ صحیح نہ ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے، یہ کہ کر رافعہ ہنسنے لگی اور میں سوچنے لگا کہ کہاں یہ لڑکی مجھ سے بات کرنا تک گوارہ نہیں کرتی تھی اور کہاں اب سالی بننے کے بعد اتنی فری ہوگئی ہے کہ ذو معنی باتیں بھی کرجاتی ہے۔ بحر حال ان دونوں کے جانے کے بعد میں معمول کے مطابق اپنا کام کرتا رہا اور اگلے دن دوپہر میں مجھے کراچی سے پارسل مل گیا جس میں اداکارہ سمیرا ملک کے کپڑے تھے جو اس نے خاص طور پر اپنی نئے فلمائی جانے والی ویڈیوز اور مجروں کے لیے بنوائے تھے۔ پارسل ملتے ہی میں سمیرا ملک کو فون کیا تو اس نے کہا کہ ابھی تو میں مصروف ہوں، آ نہیں سکتی کل آوں گی یا پھر کسی اور کو بھیج دوں گی وہ تمہیں پیسے دے کر کپڑے لے جائے گا۔ مجھے اپنے ارمانوں پر خاک اڑتی نظر آنے لگی تو میں نے سمیرا ملک کو کہا سمیرا جی یہ مناسب نہیں، کپڑے اٹھانے کے ساتھ ساتھ آپ نے ایک اور وعدہ بھی کر رکھا ہے مجھ سے۔ میری بات سن کر سمیرا نے ایک ہلکا سا قہقہ لگایا اور بولی ااسکی تم فکر نہیں کرو، مجھے تم سے زیادہ انتظار ہے کہ کب تم اپنا ہتھیار میرے اندھیرے غار میں ڈالو۔ تم فکر نہیں کرو، اگر میں نہ بھی آسکی تو کچھ دنوں میں تمہیں اپنے گھر بلاوں گی وہاں تم جی بھر کر مجھے چودنا۔ یہ کہ کر سمیرا ملک نے فون بند کر دیا اور میں سوچنے لگا کہ میری یہ حسرت پوری نہیں ہوسکے گی کل کو وہی دیو ہیکل باڈی گارڈ آئے گا اور کپڑے اٹھا کر لےجائے گا
اگلے دن میں نے 10 بجے دکان کھولی تو 11 بجے مجھے سمیرا ملک کا فون آگیا اور اس نے پوچھا کہ آج تم میرے گھر آسکتے ہو؟؟؟ میں نے کہا نہیں گھر تو نہیں ، مشکل ہے۔ سمیرا ملک نے کہا پھر کہاں کا پروگرام ہے؟؟؟ میں نے کہا کیا مطلب کہاں کا پروگرام ہے؟؟؟ سمیرا ملک نے کہا بھول گئے تم نے ساری رات مجھے چودنا تھا۔ میں نے کہا ہاں وہ تو ٹھیک مگر ساری رات چودنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ رات سے دن تک چودتے ہی رہنا ہے، 2 ، 3 راونڈ لگاوں گا۔ سمیرا ملک نے بے تابی سے کہا تم 2 بھی لگا لو راونڈ اور ہر راونڈ 15 منٹ کا بھی ہو تو میری رات اچھی گزر جائے گی اور میں تمہیں خوش کر دوں گی۔ میں نے کہا وہ تو ٹھیک ہے، مگر رات کا راونڈ کسی اور مناسب دن لگا لیں گے ابھی آپ دکان پر ہی آجاو ادھر ہی ایک راونڈ ہوجائے۔ میری بات پر سمیرا ملک کچھ سوچتے ہوئے بولی اچھا چلو میں کوشش کرتی ہوں تھوڑی دیر تک آتی ہوں۔ میں نے کہا 2 بجے کے قریب آئیے گا 2 بجے سے لیکر 4 بجے تک میں دکان بند رکھتا ہوں تو اسی وقت ایک راونڈ ہوجائے گا۔ میری بات سن کر سمیرا ملک نے کہا چلو ٹھیک ہے میں آتی ہوں 2 بجے تک۔ یہ کہ کر سمیرا ملک نے فون بند کر دیا اور میں بے چینی سے اسکا انتظار کرنے لگا۔ 

تھوڑی دیر بعد کچھ سوچ کر میں نے دکان کا دروازہ باہر سے بند کیا اور تھوڑا ہی آگے ایک میڈیکل سٹور پر جا کر کنڈوم کا پیکٹ لے آیا۔ کنڈوم چڑھانے سے تھوڑی ٹائمنگ بڑھ جاتی ہے اور کنڈوم بھی ٹائمنگ بڑھانے والا ہو تو کیا ہی بات ہے۔ میں ایک ڈبی کی بجائے پورا پیک لے آیا تھا کیونکہ ایک دو بار کچھ خواتین نے بھی مجھ سے کنڈوم کی ڈیمانڈ کی تھی مگر میرے پاس کنڈوم نہیں ہوتے اس لیے میں نے سوچا کہ اگر کچھ خواتین مانگ لیں تو یہ بیچ کر بھی اچھے پیسے کمائے جا سکتے ہیں۔ کنڈوم کی ڈبی میں نے ایک سائیڈ پر برا والی الماری کے ساتھ لٹکا دی اور بے چینی سے سمیرا ملک کا انتظار کرنے لگا۔ کوئی 2 بجے کے قریب دکان کے باہر ایک بڑی پچارو آکر رکی اور اس میں سے ایک دیوہیکل آدمی باہر نکلا، پھر سمیرا ملک نکلی اور دونوں دکان کی طرف بڑھنے لگے، میرے ارمانوں پر ایک بار پھر سے اوس پڑ گئی کہ سمیرا ملک نے وعدہ نہیں نبھایا اور یہ اب پھر سے کسی بہانے سے ٹال دے گی۔ دکان کا دروازہ کھول کر دونوں اندر آئے تو سمیرا ملک نے مجھے سلام بھی کیا اور حیرت انگیز طور پر مجھ سے ہاتھ بھی ملایا، ورنہ عمومی طور پر کوئی عورت دکاندار سے ہاتھ نہیں ملاتی۔ سمیرا ملک کا ہاتھ ملانا کچھ عجیب تھا، جس سے مجھے امید ہوئی کہ آج کچھ نہ کچھ ہو گا اور میرے لن کو سکون ملے گا۔ ویسے بھی کافی دنوں سے کوئی چوت نہیں ملی تھی اسے، آخری بار سمیرا ملک نے ہی اپنے منہ کی گرمی اور گیلے پن سے چوپے لگا لگا کر میرے لن کی منی نکلوائی تھی۔ 

میں نے سمیرا ملک کا حال چال پوچھا اور پانی کا بھی پوچھا مگر اس نے منع کر دیا اور بولی پہلے جلدی سے مجھے کپڑے دکھاو۔ میں نے سمیرا ملک کو کپڑے کھول کر دکھائے، اس نے سر سری طور پر کپڑے دیکھے اور اپنے ساتھ کھڑے باڈی گارڈ سے کہا کہ انکو پے منٹ کر دو باقی۔ اس نے اپنی جیب سے پیسے نکالے اور باقی کا بل ادا کر دیا۔ پھر سمیرا ملک نے کہا کہ اگر ان میں سے کسی بھی سوٹ کی فٹنگ صحیح نہ ہوئی تو وہ میں واپس کروں گی، میں نے کہا آپ بے فکر ہوجاو، مگر یہ استعمال نہیں ہونے چاہیے۔ اگر کسی کی فٹنگ خراب ہوئی تو اسی دن تبدیل کروا لینا ایسا نہ ہو کہ اس ڈریس میں شوٹنگ ہوجائے اور اسکے بعد وہ واپسی کے لیے آئے۔ میری اس بات پر سمیرا ملک نے قدرے غصے کا اظہار کیا اور بولی مجرے ضرور کردی آں میں پر اینی وی بے غیرت نی ہوئی۔ پھر اس نے اپنے ساتھ موجود باڈی گاڈ سے کہا کہ وہ یہ کپڑے لیکر سٹوڈیو چلا جائے اور طارق صاحب کے حوالے کر دے ، مجھے ابھی مارکیٹ میں کچھ کام ہے 2 سے 3 گھنٹے لگ سکتے ہیں تم 4 بجے تک آجانا مجھے لینے۔ اس شخص نے بغیر کچھ کہے واپسی کی راہ لی اور سمیرا ملک کے ڈریس گاڑی میں رکھ کر وہاں سے چلا گیا، میں سمجھ گیا تھا کہ سمیرا ملک اب اپنی چوت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بےتاب ہے، اسکے جاتے ہی میں نے دکان کا دروازہ لاک کیا اور دکان بند ہے کا سائن بورڈ لگا کر واپس سمیرا ملک کی طرف مڑا۔

بریزر والی شاپ 
قسط 23 
واپس مڑتے ہی میں نے سمیرا ملک کو اپنے سینے سے لگا لیا اور اسکے ہونٹوں پر دیوانہ وار پیار کرنے لگا اس نے بھی میرا بھرپور ساتھ دیا اور فورا ہی میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔ میرے ہاتھ سمیرا ملک کے چوتڑوں پر تھے اور میں سمیرا کو چومنے کے ساتھ ساتھ اسکے چوتڑوں کو بھی دبا رہا تھا جبکہ سمیرا ملک نے ایک ہاتھ میری گردن پر ڈالا ہوا تھا اور دوسرا ہاتھ وہ میری ٹانگوں کے بیچ لیجا کر میرے لن پر رکھ چکی تھی۔ اس نے ہاتھ میرے لن پر رکھا اور اسے دبا کر اسکی سختی کا اندازہ کرنے لگی۔ پھر اسکو ہلکے ہلکے جھٹکے دینے لگی اور ساتھ ساتھ میرے منہ میں اپنی زبان ڈال کر اسکو گول گول گھمانے لگی۔ میں نے بھی اسکی زبان کو چوسنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر چوما چاٹی کے بعد سمیرا ملک نے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سے جدا کیا اور فورا ہی نیچے بیٹھ کر میری قمیص اٹھائی اور پھر میری شلوار کا ناڑا کھول کر میری شلوار نیچے گرا دی اور میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے غور سے دیکھنے لگی۔ اسکی آنکھوں میں موجود چمک سے صاف پتا لگ رہا تھا کہ وہ بھی میری طرح کافی بے تاب تھی میرے ساتھ ملاپ کے لیے۔ میں نے اسکو کہا لگتا ہے کافی گرمی بھری ہے چوت میں ؟؟؟ سمیرا نے اوپر دیکھا اور بولی جب سے تمہارے لن کا چوپا لگایا ہے کوئی اور لن ملا نہیں ابھی تک اس لیے زیادہ صبر نہیں ہورہا، یہ کہ کر اس نے میرے لن کی ٹوپی پر اپنے ہونٹوں سے ایک کِس کی اور پھر اسکو اپنے ہونٹوں میں لیکر گول گول گھمانے لگی ساتھ ہی اپنی زبان کو میرے لن کی ٹوپی کے سوراخ پر بھی زور زور سے مارنے لگی جس سے میں فورا ہی مزے کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ 

اس سے پہلے کہ وہ میرے لن کی ٹوپی کا برا حال کرتی میں نے اس سے پوچھا سمیرا جی کنڈوم چڑھا کر لن چوسنا پسند ہے یا پھر ایسے ہی؟؟؟ سمیرا نے کہا جو مزہ بغیر کنڈوم کے چوپا لگانے میں آتا ہے وہ کنڈوم کے ساتھ نہیں۔ یہ کہ کر اس نے دوبارہ سے میرے لن کی ٹوپی پر اپنے چوپے لگانے کی مہارت کا اظہار شروع کر دیا اور مجھے فکر ہونے لگی کہ ایک ہفتے سے چوت کا پیاسا لن کہیں جلدی ہی چھوٹ نہ جائے۔ پھر سمیرا نے منہ سے میرا لن نکالا اور بولی ویسے کنڈوم فلیور والا ہے یا عام؟ میں نے کہا بنانا فلیور ہے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے وہ چڑھا لو پھر چوپے لگاتی ہوں تمہارے۔ یہ کہ کر وہ پیچھے ہٹ کر صوفے پر بیٹھ گئی اور میں کاونٹر میں اندر جا کر کنڈوم کی ڈبی نکال کر اس میں سے ایک کنڈوم اپنے لن پر چڑھانے لگا۔ لن پر کنڈوم چڑھانے کے بعد جب میں واپس مڑا تو سمیرا ملک اپنی قمیص اور برا دونو ہی اتار چکی تھی اور اسکے ہاتھ شلوار اتارنے کی تیاریوں میں تھے۔ اف۔۔۔۔۔ کیا ممے تھے سمیرا ملک کے۔۔۔ 38 سائز کے بڑے بڑے خربوزے جتنے ممے دیکھ کر تو میرا لن انکو سلامی دینے کے لیے چھت کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوگیا تھا۔ ابھی میں سمیرا ملک کے مموں کے حسن میں ڈوبا ہوا تھا کہ سمیرا ملک اپنی شلوار اتار کر میرے سامنے کھڑی ہوگئی۔ وہ اب مکمل طور پر ننگی تھی اور آگے بڑھ کر اس نے اپنا ہاتھ میرے لن پر رکھا تو میں اسکے مموں کی طرف جھکنے لگا۔ اس نے مجھے پیچھے ہٹایا اور بولی پہلے مجھے چوپے لگانے دے پھر میرے ممے چوس لینا تاکہ تیرے لن کو چوپوں سے تھوڑا سکون ملے اسکے بعد چودائی شروع ہو۔ اس طرح زیادہ ٹائم تک تو چود سکے گا مجھے۔

میرا دل تو بہت کر رہا تھا سمیرا ملک کے ممے ہاتھ میں پکڑ کر انکو چوسنے کا مگر سمیرا کی بات بھی صحیح تھی اگر چوپے لگوانے کے فورا بعد میں لن اسکی چوت میں ڈال دیتا تو منی جلدی نکل جاتی اس لیے میں نے سمیرا ملک کی بات مان لی جو اب میرے سامنے نیچے بیٹھ چکی تھی اور میرا لن اب اسکے منہ میں تھا۔ پہلے تو اسنے کنڈوم کا بنانا فلیور ٹیسٹ کیا اور پھر کنڈوم پر بنے دانوں کو دیکھ کر بولی آج آئے گا نا مزہ ڈاٹڈ کنڈوم سے چدائی کروانے کا۔ ڈاٹڈ کنڈوم یعنی کے دانے دار کنڈوم جس پر چھوٹے چھوٹے نشان ہوتے ہیں اور وہ باہر کی طرف ابھرے ہوتے ہیں، یہ دانے جب عورت کی چوت میں جاتے ہیں تو اسکو زیادہ رگڑ دیتے ہیں جسکی وجہ سے گرم عورتوں کواور زیادہ مزہ آتا ہے جبکہ جو زیادہ چدائی کی عادی نہ ہوں انکی چوت میں جلن شروع ہوجاتی ہے اور درد ہونے لگتا ہے۔ مگر سمیرا ملک جیسی رنڈی کو بھلا یہ دانے دار کنڈوم کیوں تکلیف دیتا وہ تو چدائی کی شوقین تھی اور اسکی زیادہ تر راتیں کسی نا کسی لن کے ساتھ ہی گزرتی تھیں۔ بحرحال اب کی بار سمیرا ملک نے جو لگاتار نان سٹاپ چوپے لگائے تو میں مزے کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ وہ میرا پورا لن اپنے منہ میں لینے کی کوشش کرتی اور میرے ٹٹوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مسلتی جسکی وجہ سے مجھے بہت مزہ آتا، مگر اب میں اپنے لن کی پرفارمنس سے مطمئن تھا کیونکہ ایک تو کنڈوم چڑھا ہو تو ویسے ہی تھوڑا ٹائمنگ بڑھ جاتی ہے اوپر سے اس کنڈوم کے اندر تھوڑی سی پیسٹ لگی ہوتی ہےجو لن کی ٹوپی پر لگنے کے بعد اسکو تھوڑا سا سُن کر دیتی ہے جسکی وجہ سے لن کی ٹوپی پر رگڑ کم محسوس ہوتی ہے اور مرد کی ٹائمنگ بڑھ جاتی ہے۔ 

سمیرا ملک 5 منٹ تک بہت ہی زور دار طریقے سے میرے چوپے لگاتی رہی اسکے بعد اس نے لن اپنے منہ سے نکالا اور میرے ٹٹے اپنے منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیے اور ساتھ ساتھ میرے لن کی مٹھ مارنا جاری رکھی۔ اسکا بھی ایک انوکھا ہی مزہ تھا، کچھ دیر تک ٹٹے چوسنے کے بعد سمیرا ملک پیچھے ہٹی اور صوفے پر جا کر لیٹ گئی اور بولی چل آجا اب مزے لے میرے مموں کے۔ سمیرا ملک زیادہ موٹی نہیں تھی، اسکی کمر 30 کی تھی جو ایک عام سمارٹ لڑکی کی ہوتی ہے اور اسکی گانڈ 34 کی تھی جبکہ اسکے بڑے بڑے ممے اسکے جسم پر ایسے لگ رہے تھے جیسے کسی بچی نے 2 چھوٹے سائز کے خربوزے اپنے سینے پر رکھ لیے ہوں۔ 28 سال کی جوان سمیرا ملک صوفے پر لیٹی کسی خوبصورت حسینہ کی طرح دکھ رہی تھی اور میں نے بھی اسکے بلانے پر فورا ہی اسکے اوپر لیٹنے میں دیر نہیں لگائی اور اسکے ممے ہاتھ میں پکڑ کر زور زور سے دبانے لگا ساتھ ہی اسکے موٹے موٹے نپلز کو اپنے منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیا جس سے سمیرا ملک کی ہلکی ہلکی سسکیاں نکلنے لگیں اور اسکے ہاتھ میری کمر کا مساج کرنے لگے۔ سمیرا ملک کا جسم ہر طرح کے سیکسی مجروں کے لیے بہترین تھا، اسکے نیچے جھکنے پر اسکے 38 کے بھاری بھر کم ممے قمیص سے باہر نکلنے کی کوشش کر کرے حاضرین کے لوڑوں کو کھڑا ہونے پر مجبور کر دیتے تھے، اور اس وقت یہ ممے میرے منہ میں تھے اور میرا لن سمیرا ملک کی دونوں رانوں کے بیچ میں تھا اور سمیرا ملک اپنی رانوں کو آپس میں ملا کر میرے لن کو مسل رہی تھی۔ میں سمیرا ملک کے مموں کو اپنے ہاتھوں میں لیکر زور سے دباتا اور اپنی زبان کی نوک سے سمیرا ملک کے موٹے موٹے سخت نپلز کو رگڑتا جس سے اسکی خواری میں اضافہ ہو رہا تھا اور تھوڑی دیر ہی ابھی میں اسکے بھاری بھر کم مموں سے کھیلا تھا کہ اس نے مجھے پیچھے ہٹا دیا اور بولی چل اب میری چوت کی پیاس مٹا۔ کتنے دنوں سے تیرا لوڑا لینے کے لیے تڑپ رہی ہوں ڈال دے اب اندر۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور یہ کہ کر میں اسکی ٹانگوں کی طرف بڑھا اور اسکی ٹانگیں کھول کر اپنی زبان اسکی گیلی چوت پر رکھ دی۔ اسکی پھدی سے معلوم ہورہا تھا کہ یہ نجانے کتنے لوڑوں کو اپنے اندر سما چکی ہے اسلیے اب کچھ خاص ٹائٹ نہیں تھی مگر گرمی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ میں نے اپنی زبان سمیرا کی پھدی پر رکھ کر رگڑنا شروع کی تو اس نے کچھ دیر تو اپنی ٹانگیں مار مار کر اپنی بے چینی کا اظہار کیا اور میرا سر پکڑ کر اپنی پھدی پر زور زور سے رگڑنے کی کوشش کرنے لگی اور ساتھ ساتھ اپنی وحشیانہ سسکیوں سے پوری دکان کا ماحول گرم کر دیا تھا، مگر پھر اس نے کہا بس کر دے یار، اب مار میری پھدی اپنے لوڑے سے۔ وہ لن لینے ک لیے کچھ زیادہ ہی بے تاب تھی، میں نے بھی اسے زیادہ تڑپانا مناسب نہیں سمجھا اور اسکی ٹانگوں کو کھول کر ایک گھٹنا اسکی پھدی کے قریب رکھا اور ایک ٹانگ صوفے کے نیچے زمین پر لگا کر اپنے لن کی ٹوپی اسکی چوت پر فٹ کی اور ایک زور دار دھکا مارا جس سے آدھے سے زیادہ لن سمیرا ملک کی پھدی میں اترتا چلا گیا۔ 

جیسے ہی میرا موٹا لن سمیرا ملک کی چوت میں گیا اس نے ایک ہلکی سی چیخ اور لمبی سی سسکاری لی جس سے معلوم ہوا کہ میرے لن نے اسکو پہلے ہی دھکے میں بہت مزہ دیا ہے، پھر میں نے اپنا لن باہر نکال کر اسکو ایک بار پھر سمیرا ملک کے پھدی کے سوراخ پر رکھا اور اپنی کمر کا زور لگا کر زور دار دھکا مارا، اس بار میرا پورا لن جڑ تک سمیرا ملک کی پھدی میں غائب ہوگیا اور اس نے اب کی بار قدرے زور دار چیخ ماری اور پھر بولی دھکے مار بہن چود۔۔۔۔۔ زور زور سے دھکے مار میری پھدی میں۔ مٹا دے اسکی پیاس۔ میں نے بھی بغیر وقت ضائع کیے سمیرا ملک کی پھدی میں زور زور سے دھکے مارنے شروع کر دیے اور شروع سے ہی اپنی رفتار اتنی تیز رکھی کہ سمیرا ملک کے لیے میرے دھکے برداشت کرنا مشکل ہوں۔ اوپر سے میر ے لن پر چڑھا ہوا دانے دار کنڈوم بھی سمیرا ملک کی چوت کی دیواروں پر زیادہ رگڑ دے رہا تھا جسکی وجہ سے اسکی خواری میں مزید اضافہ ہورہا تھا۔ میرے ہرد ھکے پر سمیرا ملک کے بھاری بھر کم ممے بھی تیز تیز ہلتے اور میں ان ہلتے ہوئے مموں کو دیکھ کر چودائی کی رفتار میں اور بھی اضافہ کرتا چلا جا رہا تھا۔ سمیرا ملک کی ایک ٹانگ کو میں نے ہلکا سا موڑا ہوا تھا اور اسکا پاوں میری ران پر تھا جبکہ دوسری ٹانگ کو میں نے اپنے کندھے پر رکھا ہوا تھا اور اس طرح سمیرا کی پھدی تک میرے لن کو کافی کھلا راستہ ملا ہوا تھا اور میں اپنی اچھی رفتار کے ساتھ سمیرا ملک کی پھدی کی گہرائیوں تک اپنے لن کی ٹوپی کو مار رہا تھا۔ سمیرا ملک کی پھدی میں میرا لن پچھلے 5 منٹ سے مسلسل نان سٹاپ دھکے لگانے میں مصروف تھا اور میں ایک لمحے کے لیے بھی رکا نہیں تھا ، یہی وجہ تھی کہ مجھے سمیرا ملک کے جسم میں کچھ تناو پیدا ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اور اب اسکی سسکیاں خطرناک حد تک میری دکان میں گونج رہی تھیں اور مجھے یہ بھی ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں اسکی وحشیانہ آوازیں دوسری دکان میں نہ سنائی دے رہی ہوں، مگر اس وقت تو میرے ذہن پر چودائی کا بھوت سوار تھا اور میں سمیرا ملک کی چوت کا پانی نکالنے کے لیے اور بھی زور دار دھکے مارنا شروع ہوچکا تھا۔ کوئی 7 منٹ کی مسلسل چودائی کے بعد سمیرا ملک کے جسم کا تناو بہت بڑھ گیا تھا اور اسکی چوت بھی پہلے کہ مقابلے میں تھوڑی ٹائٹ ہوگئی تھی، اسکی چوت کی پکڑ میرے لن پر بہت مظبوط ہوگئی تھی اور اب مجھے ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے میں کسی نوجوان حسینہ کی چوت کو چود رہا ہوں۔ پھر اچانک ہی سمیرا ملک کے جسم نے جھٹکے لینا شروع کیا اوراسکی چوت سے پانی کا ایک فوارہ نکلا جس نے میرے لن کے ساتھ ساتھ میرے پیٹ اور مسانے تک کو بھگو دیا تھا۔ جتنی دیر تک سمیرا کا جسم جھٹکے لیتا رہا اتنی دیر تک میں نے دھکے لگانا جاری رکھے تاکہ اسکی منی کا آخری قطرہ تک اسکی چوت سے نکل جائے۔ جب سمیرا ملک کے جسم نے جھٹکے لینا بند کر دیے تو میں نے سمیرا ملک کی چوت میں جھٹکے مارنے بند کر دیے اور اس سے پوچھا کہ سناو کیسی رہی چدائی؟؟؟

Post a Comment

0 Comments