Bra wali Shop Episode 18,19

 بریزر والی شاپ 
قسط 18 

اگلے دن وہی اپنی روٹین کے مطابق دکان پر چلا گیا اور کسٹمرز کو ڈیل کرنے لگا۔ بوریت کی انتہا تھی ابھی تک کل کے منظر آنکھوں میں گھوم رہے تھے جب میم نے خود میری بنیان اتار کر اپنی زبان سے میرے نپلز کو چاٹا تھا۔ اور پھر اپنی لگائی ہوئی آگ کو خود ہی پانی ڈال کر بجھا دیا تھا۔ اسی وجہ سے موڈ آف تھا۔ دوپہر کے 2 بجے تو میں نے دکان کا دروازہ بند کر دیا اور کھانا کھا کر سستانے کے لیے لیٹ گیا۔ ابھی مجھے لیٹے ہوئے 5 منٹ ہی گزرے ہونگے کہ میرے نمبر پر ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ میں نے پہلے تو کال کاٹنے کا سوچا مگر پھر سوچا شاید کسی کا ضروری فون ہو، یہی سوچ کر فون اٹھا کر کال اٹینڈ کی اور ہیلو کہا تو آگے کوئی کھلکھلاتی ہوئی نسوانی آواز تھی۔ میں نے پوچھا کون؟ تو آگے سے وہ لڑکی بولی بوجھو تو جانیں۔ میں نے کہا میں نے پہچانا نہیں کون بول رہی ہیں آپ ؟؟ آگے سے لڑکی چہکتی ہوئی بولی تو اب ہماری آواز بھی نہیں پہچان سکتے آپ؟؟؟ مجھے اس پر غصہ آیا اور میں نے کہا بی بی میرے پاس زیادہ فضول باتوں کا وقت نہیں میرے آرام کا ٹائم ہے کوئی ضروری بات ہے تو بتاو نہیں تو میں فون بند کر رہا ہوں۔ 

میری بات سن کر آگے سے لڑکی بولی ۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔۔ جیجا جی فون بند نہ کرنا میں رافعہ بات کر رہی ہوں۔ رافعہ کا نام سن کر میرا موڈ ایک دم سے ٹھیک ہوگیا ، آخر کو میری سالی تھی وہ، اور سالی اپنے جیجا سے مذاق نہیں کرے گی تو اور کون کرے گی۔ میں نے کہا ہاں رافعہ کیا حال چال ہیں؟ رافعہ نے کہا میں بالکل ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟؟ میں نے کہا میں نے کیسا ہونا ہے، تم نے اپنا وعدہ ہی پورا نہیں کیا ۔۔۔۔ اس پر رافعہ اٹھلاتی ہوئی بولی اجی آپ حکم تو کریں ہماری کیا مجال کہ آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہ کریں۔ میں نے کہا بس رہنے دو، تم نے ملیحہ کو مجھ سے ملوانے میری دکان پر لانا تھا اور آج اتنے دن گزر گئے مگر تمہارا کوئی اتا پتا ہی نہیں۔ ملیحہ کو چھوڑو تم نے تو اپنی شکل بھی دکھانا گوارا نہیں کیا۔ چلو بندہ سالی کو دیکھ کر ہی خوش ہوجاتا ہے آخر کو وہ بھی آدھی گھر والی ہوتی ہے۔ میری بات سن کر رافعہ کھلکھلا کر ہنسی اور پھر بولی میں وعدہ کیسے پورا کروں جب آپ دروازہ بند کر کے آرام کرنے میں مصروف ہونگے۔ میں نے کہا کیا مطلب؟ رافعہ بولی مطلب یہ کہ ماہ بدولت آپکی دکان کے باہر ہیں مگر آپ نے دروازہ لاک کر رکھا ہے۔ یہ سن کر میں نے ایکدم سر اٹھا کر صوفے سے دروازے کی طرف دیکھا تو دروازے کے باہر واقعی رافعہ کھڑی تھی۔ اور اسکے ساتھ ایک اور لڑکی بھی سر جھکائے کھڑی تھی جو رافعہ کے پیچھے تھی اسکی شکل میں صحیح طرح سے دیکھ نہیں پایا۔ 

مجھے ایک جھٹکا لگا اور دن بھر کی ساری اداسی ایک دم سے غائب ہوگئی۔ پچھلی لڑکی ہو نہ ہو ملیحہ ہی ہے اسی یقین کے ساتھ میں ایکدم سے اٹھا اور فون بند کر کے دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی رافعہ اندر آگئی اور اپنی آپی کو بھی اندر آنے کا کہا۔ رافعہ نے اندر آتے ہی میرے سے گرمجوشی کے ساتھ ہاتھ ملا کر سلام کیا اور پیچھے ملیحہ نے بھی ہلکی سے آواز میں مجھے سلام کیا تو میں نے پیار کے ساتھ دھیمے لہجے میں اسکے سلام کا جواب دیا اور اسکی طرف اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ ملیحہ نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملا لیا۔ اور ایک لمحے کے لیے آنکھیں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر فورا ہی اپنی نظریں جھکا لیں۔ ان دونوں کو صوفے پر بیٹھنے کا کہ کر میں نے دروازہ دوبارہ سے لاک کر دیا اور کاونٹر میں جا کر فون پر ساتھ ہی ایک چھوٹی شاپ پر سموسوں اور بوتلوں کا آرڈر کیا۔ اس پر ملیحہ نے رافعہ کو کہنی ماری کے انہیں روکو، مگر رافعہ بولی ارے آپی آپکو تو ابھی سے جیجا جی کے خرچوں کی فکر ہونے لگ گئی، منگوانے دیں منگوانے دیں، ویسے تو انہوں نے ہم سے کبھی پانی کا بھی نہیں پوچھا اب آپکی وجہ سے اگر سموسے اور بوتل مل رہی ہے تو آپ کیوں میری دشمن بن رہی ہو۔ رافعہ کی بات سن کر میں مسکرایا اور کہا بڑی جھوٹی ہے میری سالی تو۔ میں نے تو ڈرنکس کا پوچھا تھا مگر محترمہ خود ہی انکار کر دیں تو بھلا میں کیا کر سکتا تھا۔ میری بات سن کر رافعہ بھی مسکرائی اور بولی نہیں میں تو ایسے ہی مزاق کر رہی ہوں۔ البتہ آج سموسے تو ضرور کھاوں گی آپ سے۔ میں اسکی بات سن کر مسکرایا اور کہا جو حکم سالی صاحبہ کا۔ پھر میں ملیحہ کی طرف متوجہ ہوا، اسکے چہرے کو غور سے دیکھا تو وہ بھی بالکل رافعہ کی طرح ہی دکھتی تھی۔ دونوں کی شکل و صورت میں کافی حد تک مماثلت تھی ما سوائے یہ کہ ملیحہ کے اوپر والے ہونٹ کے اوپر ایک چھوٹا سا تِل تھا جبکہ رافعہ کا چہرہ بالکل صاف تھا۔ خوبصورت آنکھیں، آنکھوں میں شرم ہو حیا کی وجہ سے لال ڈورے، چہرے پر ہلکی سی مسکان صاف شفاف رنگ ، ہر لحاظ سے ملیحہ رافعہ کی طرح ہی خوبصورت تھی۔ اچھی طرح اسکا جائزہ لینے کے بعد میں نے دل ہی دل میں امی کی پسند کی داد دی کہ انہوں نے اپنے اس نکمے بیٹے کے لیے اتنی اچھی جیون ساتھی ڈھونڈ لی۔ پھر میں نے ملیحہ سے پوچھا کہ آپ ایسے ہی خاموش رہتی ہیں یا کچھ بولتی بھی ہیں۔ میری بات سن کر ملیحہ کو جیسے جھٹکا لگا وہ اسی بات پر بوکھلا گئی کہ میں نے اسکو مخاطب کیا ہے۔ میری بات کا جواب دینے کے لیے اس نے اپنے لب کھولے تو ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں کہنے لگی۔۔۔ نہیں وہ۔۔۔۔۔۔ بس ایسے ہی۔۔۔۔ آپکی باتیں سن رہی ہوں۔ میں نے کہا ہماری بھی خواہش ہے کہ ہم آپکی آواز سنیں اگر آپ بھی تھوڑا سا کچھ بول لیں گی تو اچھا لگے گا۔ اس سے پہلے کہ ملیحہ کچھ بولتی باہر سموسوں والا آگیا تو میں نے آگے ہوکر دروازہ کھولا اور اس سے سموسے اور بوتلیں پکڑ کر اپنے کاونٹر پر لگا دیں۔ اور واپس ہوکر دروازہ پھر سے لاک کر دیا، پھر کاونٹر کے پیچھے جا کر میں نے ملیحہ اور رافعہ کو کہا کہ میرے پاس یہاں کوئی ٹیبل موجود نہیں جو آپکے سامنے رکھ سکوں اس لیے آپکو یہیں آکر کھڑے ہوکر کھانا پڑے گا۔ میری بات سن کر رافعہ تو فورا اٹھ گئی اور ایک سموسہ اٹھا کر ہاتھ سے توڑ کر کھانے لگی حالانکہ پلیٹ میں چمچ بھی پڑا تھا اور ساتھ چٹنی والی پلیٹ بھی تھی مگر وہ بغیر چٹنی کے ہی ہاتھ سے توڑ کر سموسہ کھانے لگی، وہ کچھ زیادہ ہی شوقین لگ رہی تھی سموسوں کی۔ جبکہ ملیحہ ابھی تک صوف پر ہی بیٹھی تھی۔ 

ملیحہ کو ہچکچاتے دیکھ کر میں نے کہا رافعہ تمہاری آپی خود اٹھ جائیں گی یا مجھے جا کر ہاتھ پکڑ کر اٹھانا پڑے گا انہیں۔ میری بات سن کر رافعہ بولی آپ دونوں کا آپس کا معاملہ ہے مجھے تنگ نہ کریں مجھے سموسہ کھانے دیں آرام سے۔ رافعہ کی بات سن کر میری ایک دم سے ہنسی نکل گئی جبکہ میری بات سن کر ملیحہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوچکی تھی کہ کہیں میں واقعی اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانے کے لیے نہ آجاوں۔ ملیحہ کاونٹر کے قریب آئی تو میں نے سموسوں کی ایک پلیٹ اسکے سامنے کر دی اور چٹنی کی پلیٹ بھی اسکے آگے کی۔ رافعہ نے اپنی پلیٹ سے چمچ اٹھا کر وہ بھی ملیحہ کی پلیٹ میں رکھتے ہوئے کہا چلیں آپ دونں مل کر کھا لیں اسی چمچ سے مجھے تو ہاتھوں سے کھانا ہی اچھا لگتا ہے۔ میں نے کہا نہیں میں تو نہیں کھاوں گا میں نے ابھی ابھی روٹی کھائی ہے۔ میری بات سن کر رافعہ بولی وہ تو آپ نے اکیلے کھائی ہے نہ، اب ذرا باجی کے ساتھ بھی تھوڑا سا کھا کے دیکھ لیں شاید کچھ اپنا اپنا سا لگے۔ ملیحہ اسکی بات سن کر ہلکا سا مسکرائی اور بولی آپ اسکی باتوں کا برا نہ منائیے گا اسکو تو بکواس کرنے کی عادت ہے۔ میں نے کہا شکر ہے آپ بھی کچھ بولیں۔ ویسے آپکی بہن بکواس نہیں کر رہی بلکہ اس نے بہت پتے کی بات کی ہے۔ آج میں بھی تو دیکھوں کہ اپنی منگیتر کے ساتھ کھاتے ہوئے کیسی فیلنگ آاتی ہے۔ میری بات مکمل ہونے تک ملیحہ ایک چمچ اپنے منہ میں ڈال چکی تھی تب میں بھی دوسرے چمچ سے سموسہ توڑنے لگا مگر پھر خود ہی وہ چمچ رافعہ کو واپس کر دیا اور کہا رافعہ میں نے سنا ہے کہ ایک ہی چمچ سے کھانے سے محبت بھی بڑھتی ہے۔ رافعہ کے منہ میں سموسہ تھا وہ ایسے ہی سموسہ کھاتے کھاتے بولی بڑھتی ہوگی، مجھے کیا پتا میں تو ابھی بچی ہوں۔ اسکی بات سن کر میں ہنس پڑا اور کہا نہیں تم اتنی بھی بچی نہیں ہو۔ جبکہ میری محبت بڑھنے والی بات کا سن کر ملیحہ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر چمچ میری طرف کر دیا تھا تاکہ میں بھی اسی چمچ سے سموسہ کھا سکوں جس سے ملیحہ نے کھایا تھا۔ میں نے وہ چمچ پکڑا اور تھوڑا سا سموسہ اپنے منہ میں ڈال کر چمچ واپس ملیحہ کو پکڑا دیا او رکہا واہ ۔ ۔ ۔ اس چمچ سے تو سموسہ بھی میٹھا میٹھا لگ رہا ہے۔ میری بات سن کر ملیحہ اور رافعہ دونوں ہی مسکرانے لگیں۔ میں پیچھے ہوکر بیٹھ گیا تاکہ ملیحہ آرام سے کھا سکے اس نے مجھے دوبارہ سے چمچ پکڑایا مگر میں نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ نہیں بالکل گنجائش نہیں، اگر آپ پہلے بتا کر آتیں تو میں آپکے لیے کوئی اچھی چیز بھی منگوا لیتا اور ہم تینوں ملکر کھاتے مگر آپکے آنے سے پہلے ہی کھانا کھایا تھا اب مزید گنجائش نہیں ۔ 

سموسے کھانے کے بعد رافعہ اور ملیحہ دونوں ہی جیولری دیکھنے لگ گئیں اور میں بہت شوق کے ساتھ انہیں دکھاتا رہا۔ میں جانتا تھا کہ انہوں نے لینا کچھ نہیں بس ایسے ہی وقت گزاری کی خاطر جیولری دیکھ رہی ہیں۔ کیونکہ ابھی ملیحہ اور میں اتنے فری نہیں ہوئے تھے کہ لمبی لمبی باتیں کر سکتے۔ یہ تو ہماری پہلی ملاقات تھی۔ جیولری دیکھنے کے دوران ملیحہ نے ایک دوبار انڈر گارمنٹس کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھی مگر پھر فورا ہی دوبارہ سے جیولری دیکھنے میں مصروف ہوجاتی۔ جب دونوں جی بھر کر جیولری دیکھ چکیں تو رافعہ نے ملیحہ کو کہا آپی چلیں اب؟؟؟ میں نے کہا ارے اتنی جلدی؟؟؟ رافعہ نے کہا جیجا جی آپی کے آنے کی خوشی میں آپکو وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا ہمیں آئے ہوئے گھنٹے سے اوپر کا وقت ہوچکا ہے۔ میں نے وال کلاک کی طرف نظر ڈالی تو واقعی 4 بج کر 15 منٹ ہورہے تھے۔ انکو آئے ہوئے 2 گھنٹے گزر چکے تھے۔ اور میری دکان ابھی تک بند تھی جبکہ اس وقت تک میں دکان کھول لیتا تھا۔ 

ملیحہ نے بھی کہا ہاں چلو چلتے ہیں۔ رافعہ صوفے کی طرف اپنا سامان اٹھانے کے لیے بڑھی تو میں نے ملیحہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس روک لیا اور بہت پیار سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا ملیحہ آپ پہلی بار مجھ سے ملی ہو، میرے پاس یہاں کوئی بہت قیمتی چیز تو نہیں لیکن میں آپکو ایک چھوٹا سا تحفہ دینا چاہتا ہوں اگر آپکو اعتراض نہ ہو تو۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے ہاتھ میں ملیحہ کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ شرم کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ مجھے اس طرح اسکا کانپتا ہاتھ دیکھ کر اس پر بہت پیار آیا، میں نے ہولے سے اسکے ہاتھ کو دبایا اور آہستہ سے کہا آپکا ہاتھ کسی غیر کے ہاتھ میں نہیں جو آپ اتنا ڈر رہی ہیں، اب تو آپ میری اور میں آپکا ہوں۔ میری بات سن کر ملیحہ کا ہاتھ تو نہ رکا، وہ مسلسل کانپتا ہی رہا مگر اسکے گالوں پر ایک سرخی اور ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ ضرور آئی۔ اتنی دیر میں رافعہ اپنی چیزیں اٹھا کر واپس پہنچی تو مجھے یوں ملیحہ کا ہاتھ پکڑا دیکھ کر بولی، او ہو۔۔۔۔ یہاں تو رومانس چل رہا ہے میں ایسے ہی کباب میں ہڈی بننے آگئی۔ رافعہ کی بات سن کر ملیحہ نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا مگر میں نے نہ چھوڑا اور کہا بس ایک منٹ ۔۔۔ یہ کر کہ میں ایسے ہی واپس مڑا اور جیولری میں سے ایک انگوٹھی نکالی جسے پہلے رافعہ اور ملیحہ بہت دیر تک دیکھتی رہی تھیں۔ میں سمجھ گیا تھا کہ ملیحہ کو یہ انگوٹھی پسند آئی ہے۔ میں نے وہ انگوٹھی اٹھائی اور ملیحہ کا ہاتھ چھوڑ دیا، پھر اسکو انگوٹھی دکھاتے ہوئے بولا، ابھی میں آپکو گولڈ کی رنگ تو نہیں پہنا سکتا، مگر میرا خیال ہے کہ یہ آپکو اچھی لگی ہے، اگر آپ برا نہ منائیں تو کیا میں آپکو یہ پہنا سکتا ہوں۔ ملیحہ بولی ارے نہیں اسکی کیا ضرورت ہے، آپ رہنے دیں، آپکی امی نے مجھے گولڈ کی رنگ ہی پہنائی ہے آپکی طرف سے۔ ملیحہ کی بات سن کر رافعہ بولی ارے واہ، ضرورت کیوں نہیں، وہ بے شک گولڈ کی ہو مگر وہ تو آنٹی نے پہنائی تھی، اور یہ جیجا جی خود اپنے ہاتھوں سے، بڑے پیار سے، بڑے چاو سے اپنی منگیتر کو پہنانا چاہ رہے ہیں، تو اسکی ویلیو تو خود ہی گولڈ کی رنگ سے بڑھ گئی نہ۔ رافعہ کی بات سن کر میں نے رافعہ کو کہا ، تمہیں بڑا پتا ہے پیار کے بارے میں ، ابھی تو تم کہ رہی تھی کہ تم بچی ہو۔ یہ سن کر رافعہ ہنسی اور بولی وہ تو میں ہوں۔ پھر میں نے دوبارہ ملیحہ کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے اپنا بایاں ہاتھ میرے سامنے کر دیا، میں نے اسکا ہاتھ پیار سے پکڑا اور اسکی تیسری انگلی میں انگوٹھی پہنا دی اور پھر اسکو کچھ دیر دیکھنے کے بعد اسکا ہاتھ چھوڑ دیا۔ ملیحہ نے بھی کچھ دیر تک اپنی انگلی میں انگوٹھی کو دیکھا پھر میرا شکریہ ادا کرنے لگی۔ میں نے کہا ارے شکریہ کیسا ، یہ تو میں نے اپنی پہلی ملاقات کی خوشی میں آپکو دی ہے۔ رافعہ بولی ہاں بس سمجھو آپی آپکو منہ دکھائی ملی ہے۔ یہ سن کر میں نے اور ملیحہ دونوں نے ایک دم سے حیران ہوکر رافعہ کی طرف دیکھا اور وہ بھی تھوڑی شرمندہ ہوکر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوگئی۔ ملیحہ نے اسکو آہستگی سے ڈانٹا اور بولی شرم کرو رافعہ۔ اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی اچھا اب ہم چلتے ہیں بہت دیر ہو رہی ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے مگر آپ اپنا نمبر دیتی جائیں تو آپ سے تھوڑی فون پر گپ شپ ہوجائے گی، دوبارہ تو معلوم نہیں کہ آپ کب اپنا دیدار کراوئیں گی۔ ملیحہ نے کہا میرے پاس کوئی موبائل نہیں ، یہ تو ماما کا موبائل ہے۔ آپکا نمبر میرے پاس ہے، میں آپکو خود ہی کال کر لوں گی مناسب وقت دیکھ کر۔ میں نے کہا چلیں یہ بھی ٹھیک ہے، مگر کال کی بجائے ایس ایم ایس کیجیے گا کال میں خود کر لوں گا۔ ملیحہ نے کہا ٹھیک ہے، میں نے ایک بار پھر ملیحہ کی طرف ہاتھ بڑھایا اور کہا چلیں پھر رات کو امید ہے بات ہوگی۔ ملیحہ نے بھی اپنا ہاتھ بڑھا کر میرا ہاتھ تھاما اور بولی ٹھیک ہے میں کوشش کروں گی رات 11 بجے کے بعد آپکو ایس ایم ایس کردوں۔ اسکے بعد ملیحہ اور رافعہ تو دونوں ہی چلی گئیں مگر میں کافی دیر تک ملیحہ کے خیالوں میں ہی کھویا رہا، بہت معصوم اور خوبصورت لڑکی تھی۔ رافعہ تو مجھے پہلے ہی پسند تھی اور میری خواہش بھی تھی اس سے دوستی کرنے کی، اور یہ خواہش پوری بھی ہوئی تو اس طرح کہ ایک تو رافعہ سالی بننے کے بعد ویسے ہی فری ہوگئی میرے ساتھ ، جتنا پہلے وہ خاموش رہتی تھی اب اتنا ہی بولتی تھی، جبکہ اسی کی ہم شکل ملیحہ سے میری منگنی ہوگئی۔ دونوں بہنیں ایک جیسی ہی خوبصورت تھیں بس تھوڑا سا ہی فرق تھا جسامت کا اور ملیحہ کے ہونٹوں کے اورپر ایک چھوٹے سے تِل کا۔ رات گیارہ بجے مجھے اسی نمبر سے میسج آیا جس سے دوپہر میں کال آئی تھی، میسج میں لکھا تھا 5 منٹ بعد مجھے کال کریں۔ میں نے 5 منٹ کے بعد کال کی تو آگے سے ملیحہ کی خوبصورت آواز سنائی دی۔ ہم دونوں کے بیچ باتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، دونوں ایکدوسرے کو زیادہ نہیں جانتے تھے اس لیے پہلی رات 2 سے 3 گھنٹے بات تو کی مگر صرف ایک دوسرے کے بارے میں معلومات ہی لیتے رہے، کس کو کیا پسند ہے، کیا چیز بری لگتی ہے، مصروفیات کیا ہوتی ہیں، پسندیدہ موویز، اداکار، اداکارہ، فلم، گانے، شعر و شاعری سے شغف، کپڑوں میں پسند نا پسند، بس اسی طرح کی باتیں ہوتی رہیں اور کب رات کے 2 بج گئے پتا ہی نہ لگا۔ تبھی ملیحہ نے مجھے کہا اچھا اب آپ سوجائیں صبح آپ نے دکان پر بھی جانا ہوگا۔ ملیحہ کی بات سن کر مجھے ہوش آیا اور میں نے ملیحہ کو گڈ بائے کہ کر فون بند کر دیا اور اسی کے سپنے دیکھتا ہوا سو گیا
  کافی دن گزر گئے اور کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا، نہ تو سلمی آنٹی کی کوئی خیرخبر تھی اور نہ ہی لیلی میڈیم دوبارہ دوکان پر آئیں۔ شیزہ اور نیلم کا بھی کوئی چکر نہیں لگا۔ پھر ایک دن ایک نوجوان جوڑا میری دکان میں آئے۔ اپنی عمر کے حساب سے لڑکی 20 سال کی لگ رہی تھی جبکہ لڑکے کی عمر 22 کے لگ بھگ ہوگی۔ لڑکی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی سمارٹ تھی۔ یوں کہ لیں کہ سنگل پسلی لڑکی تھی۔ اسکی کمر 26 کے لگ بھگ تھی۔ اس نے چہرے پر چادر سے نقاب کر رکھا تھا۔ اسکا نام فریحہ تھا جبکہ اسکےساتھ لڑکا جو شکل و صورت سے پڑھا لکھا اور اچھی فیملی کا معلوم ہورہا تھا اسکا نام وقاص تھا۔ وقاص نے مجھے کہا کہ اسے کچھ برا دکھاوں میں ۔ میں نے پوچھا کس سائز کا دکھاوں، وقاص نے فریحہ سے پوچھا کیا سائز ہے؟ فریحہ نے ہلکی آواز میں وقاص کو بتایا کہ اسکا سائز 32 ہے۔ مجھے یہ چیز کچھ عجیب سی لگی، اگر یہ میاں بیوی تھے تو وقاص کو فریحہ کا سائز معلوم ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں تھا۔ بحر حال میں نے 32 سائز کا برا دکھایا اور فریحہ کو کہا کہ ساتھ ہی ٹرائی روم ہے آپ چیک کر لیں کہ صحیح ہے آپکے یا نہیں۔ ٹرائی روم کا سن کر وقاص نے کہا یہ تو اچھی بات ہے، اس طرح میں بھی دیکھ سکتا ہوں کہ کون سا زیادہ اچھا لگے گا۔ میں نے کہا جی ضرور برا تو ہمیشہ اپنی پسند اور فٹنگ کے مطابق ہی لینا چاہیے۔ وقاص نے 3، 4 برا اور نکلوائے اور کہا یہ ایک ہی بار ہم ٹرائی کر لیتے ہیں پھر ان میں سے جو پسند آئے گا وہ ہم آپکو بتا دیں گے۔ 

میں نے کہا ٹھیک ہے آپ تسلی سے چیک کر لیں۔ اسکے بعد فریحہ اور وقاص دونوں ہی ٹرائی روم کی طرف بڑھے۔ جہاں میں بیٹھتا تھا وہاں سے ٹرائی روم نظر نہیں آتا تھا وہ تھوڑا سا آگے جا کر تھا۔ دونوں کو ٹرائی روم میں گئے ہوئے جب 15 منٹ سے اوپر ہوچکے تو مجھے شک ہوا کہ اندر برا چیک نہیں ہورہا بلکہ کوئی اور ہی کام ہورہا ہے۔ اسی تجسس میں میں نے ٹرائی روم کا کیمرہ آن کرکے اپنی سکرین آن کی ۔ جیسے ہی سکرین آن ہوئی اندر کا منظر کچھ عجیب ہی تھا۔ فریحہ نے اپنی قمیص اور برا اتارا ہوا تھا اور اسکے چھوٹے چھوٹے 32 سائز کے ممے واضح نظر آرہے تھے۔ جبکہ وہ فرش پر گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی اور وقاص کا 6 انچ کا لن اپنے ہاتھ میں لیکر مسل رہی تھی۔ وقاص کا چہرہ اوپر کی طرف تھا اور آنکھیں بند تھیں۔ پھر فریحہ نے وقاص کا 6 انچ کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسکی ٹوپی اپنے منہ کے نزدیک کی اور اس پر اپنے خوبصورت ہونٹ رکھ دیے۔ اور پھر آہستہ آہستہ فریحہ نے وقاص کا لن اپنے منہ میں لے لیا۔ گوکہ میں اپنی دوکان میں سلمی آںٹی کو اور شیزہ کو چود چکا تھا مگر کوئی اور میری دکان میں لڑکی کی چودائی کرے یا سیکس کرے یہ مجھے ہرگز ہرگز گورانہیں تھا۔

بریزر والی شاپ
قسط 19 

لہذا میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ٹرائی روم کے پاس جا کر غراتی ہوئی آواز میں کہا اور بے غیرتوں یہ کیا بے غیرتی کر رہے ہو، نکلو ادھر سے ورنہ بلاتا ہوں میں ابھی پولیس کو۔ یہ کہ کر میں نے ٹرائی روم کے دروازے کے اوپر سے ہی ہاتھ لے جا کر اندر کی کنڈی کھول دی اور دروازہ بھی کھول دیا۔ میری آواز سن کر دونو ں ہی ہکا بکا رہ گئے تھےاور جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا، وقاص اپنا لن پکڑ کر دوبارہ سے اپنی پینٹ میں ڈال چکا تھا اور زپ بند کر رہا تھا۔ میں نے اسکی گردن پر ایک زور دار تھپڑ رسید کیا اور اسے پکڑنے کی کوشش کی مگر پولیس کا نام سن کر اس نے فورا وہاں سے نکلنے کی کی اور اپنی گردن مجھ سے چھڑوا کر فورا ہی دکان سے باہر نکل گیا، میں اسکے پیچھے بھاگا مگر وہ شاید بھاگنے میں مجھ سے زیادہ تیز تھا۔ مین نے بھی اسکے پیچھے دکان سے باہر جانا مناسب نہ سمجھا اور دکان کا دروازہ جو کہ ہر وقت بند ہوتا ہے اسکو لاک بھی کر دیا۔ اسکے بعد میں سیدھا ٹرائی روم میں گیا جہاں فریحہ اپنا برا پہن چکی تھی اور اسکے چہرے پر ہوائیاں اڑئی ہوئی تھیں۔ مجھے اپنے سامنے دیکھ کر اس نے اپنے دونوں بازو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیے اور ٹرائی روم کی پچھلی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوگئیاور سر جھکا کر رونے لگی۔ وہ ہلکی آواز میں کہ رہی تھی پلیز مجھے جانے دو۔ میں نے اسے بھی غراتی آواز میں کہا تمہیں میری ہی دکان ملی تھی یہ سب بے غیرتیاں کرنے کے لیے۔ وہ منہ سے کچھ نہ بولی بس کھڑی روتی رہی۔ میں نے اسے بازو سے پکڑا اور ٹرائی روم سے باہر کھینچ کر اپنے کاونٹر کے قریب لے آیا۔ 

اسکا بدن بالکل گورا تھا اور پورے بدن پر کوئی بھی نشان نہیں تھا، بالکل صاف اور خوبصورت بدن تھا اسکا۔ اس نے نیچے شلوار پہن رکھی تھی جبکہ اوپر اس نے صرف برا ہی پہنا تھا قمیص پہننے سے پہلے ہی میں ٹرائی روم میں پہنچ گیا تھا۔ میں نے اسے کہا مجھے سچ سچ بتا دو یہ لڑکا کون تھا ورنہ میں تمہیں پولیس کے حوالے کردوں گا پھر وہ جو تمہارا حشر کریں گے تمہیں اچھی طرح معلوم ہے۔ اس نے روتے ہوئے ہلکی سی آواز میں کچھ کہا جسکی مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔ میں نے اسے جھنجوڑ کر کہا یہ رونے دھونے کا ڈرامہ بند کرو اور جلدی بتاو مجھے ورنہ کرتا ہوں میں ابھی پولیس کو فون۔ اس نے جلدی جلدی اپنے آںسو صاف کیے اور بولی نہیں پلیز پولیس کو فون نہ کرنا میں برباد ہوجاوں گی۔ وہ تو میڈیا میں بھی خبر دے دیتے ہیں۔ میں نے کہا اسی لیے تجھے کہ رہا ہوں سچ سچ بتا یہ لڑکا تیرا شوہر تھا یا کوئی یار ہے۔ لرکی نے سر جھکا کر کہا میں پہلے قمیص پہن آوں؟؟؟ میں نے اسے کہا چپ چاپ یہیں کھڑی رہ اور جو پوچھ رہا ہوں اسکا جواب دے۔ اس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا، میرا بوائے فرینڈ۔ میں نے پوچھا دیکھ لی اپنے بوائے فرینڈ کی بہادری تجھے یوں ننگی حالت میں چھوڑ کر اپنی جان بچا کر بھاگ نکلا سالا ڈرپوک۔
میری بات پر فریحہ خاموش کھڑی رہی وہ محض اپنے جسم کو اپنے بازوں سے چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ پھر میں نے پوچھا کہ کہاں رہتی ہو تم؟؟ تو فریحہ نے بتایا کہ وہ گھنٹہ گھر کے قریب ہی رہتی ہے اور یہاں خواتین کالج میں پڑھتی ہے۔ اور آج وقاص کی ضد پر وہ اسکے ساتھ یہاں آئی تھی وہ فریحہ کے لیے برا خریدنا چاہ رہا تھا۔ مگر ٹرائی روم میں جا کر اسکو نجانے کیا ہوا کہ اس نے فریحہ کی قمیص اور برا اتروا دیے اور اپنا لن پینٹ سے نکال کر اسکو چوسنے کا بولا۔ بقول فریحہ کے فریحہ نے اسے منع بھی کیا کہ یہ جگہ صحیح نہیں کہیں اور کر لیں گے مگر وقاص کے سر پر منی سوار تھی اسنے کہا کہ نہیں وہ یہیں پر اسکا لن چوسے ۔ پھر میں نے وقاص کے بارے میں معلومات لیں تو فریحہ نے بتایا کہ وہ کافی عرصے سے اسکے کالج کے باہر موٹر سائیکل پر آکر کھڑا ہوتا تھا اور گھر تک اسکے رکشہ کے پیچھے پیچھے آتا تھا۔ پھر ایک دن وقاص نے فریحہ کی طرف ایک کاغذ پھینکا جس پر اس سے اظہار محبت کیا ہوا تھا اور اپنا فون نمبر بھی درج تھا۔ فریحہ نے اس نمبر پر فون کر کے وقاص کو جھاڑ پلائی مگر وقاص نے پیچھا نہ چھوڑا۔ پھر آہستہ آہستہ فریحہ کو وقاص اچھا لگنے لگا تو فریحہ نے اس سے دوستی کر لی اور اکثر وہ کالج سے چھٹی مار کر کالج ٹائم کے دوران وقاص کے ساتھ اسکی بائیک پر چلی جاتی، کبھی آئسکریم پارلر میں اور کبھی دہی بھلے کی دکان پر پردہ گرا کر دونوں چوما چاٹی کرتے اور وقاص اسکے ممے بھی دباتا جسکا فریحہ کو بہت مزہ آتا۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور ایک دن وقاص فریحہ کو اپنے گھر لے گیا اور وہاں اس نے پہلی بار فریحہ کی پھدی کی سیل پھاڑی اور اسکو چودنے کے بعد اس سے شادی کا وعدہ کیا۔

آج بھی وقاص فریحہ کو اپنی پسند کا برا پہنا کر اسے اپنے گھر لیجا کر چودنا چاہتا تھا مگر اس سے رہا نہیں گیا اور اس نے یہیں ٹرائی روم میں ہی اپنا لن باہر نکال لیا اور پکڑا گیا۔ پکڑے جانے کے بعد وہ خود دم دبا کر بھاگ گیا اور فریحہ کو وہیں میرے رحم و کرم پر چھوڑ گیا۔ ساری کہانی سننے کے بعد میں نے فریحہ کو کہا یہ کرے گا کیا تیرے سے شادی؟ جو تجھے یوں اکیلا چھوڑ کا بھاگ گیا۔ اب فریحہ نے غصے اور نفرت کے ملے جلے تاثرات سے کہا میری جوتی بھی اب اس سے شادی نہیں کرتی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ ایسا نکلے گا۔ میرا خیال تھا وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ پھر فریحہ نے ہا اب میں جاوں پلیز؟؟؟ میں نے فریحہ کو مسکرا کر دیکھا اور کہا ایسے کیسے جاو گی۔ تمہارا یہ ننگا بدن دیکھ کر میرا تو اپنا لن کھڑا ہوگیا ہےاب اسکو تو سکون پہنچاو۔ فریحہ کی آنکھیں حیرت کے مارے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ بولی نہیں میں ایسا نہیں کروں گی، پلیز مجھے جانے دو۔ میں نے اپنی شلوار کا ناڑا کھول کر لن باہر نکال لیا جو اپنے جوبن پر تھا اور فریحہ کو کہا ایسا تو کرنا ہی پڑے گا تمہیں۔ فریحہ نے میرے لن پر نظر ڈالی تو ایک لمحے کے لیے تو وہ ساکت ہوگئی، اس نے اتنا لمبا اور موٹا لن پہلے نہیں دیکھا تھا، مگر پھر وہ بولی دیکھو میرے قریب مت آنا ورنہ میں شور مچا دوں گی۔ 

میں نے کہا تمہیں جتنا شور مچانا ہے مچاو، تم نے ٹرائی روم میں جو حرکت کی ہے اسکی ویڈیو ریکارڈنگ میرے پاس موجود ہے، جب یہاں لوگوں کا ہجوم ہوجائے گا تو میں انہیں وہ ویڈیو دکھاوں گا جو حرکت تم اند کر رہی تھی، پھر سب ملکر تمہاری درگت بھی بنائیں گے اور پولیس کو بلوا کر تمہیں پولیس کے حوالے بھی کریں گے۔ پھر ایس ایچ او، حوالدار، سپاہی، سب باری باری تمہاری چوت کے مزے لیں گے۔ لہذا بہتری اسی میں ہے کہ میرے ساتھ تعاون کرو، تمہیں بھی مزہ دوں گا اور میں نے بھی کافی دن سے کسی لڑکی کو نہیں چودا تو میرے لوڑے کو بھی سکون ملے گا۔ فریحہ اب مکمل خاموش تھی ، اسے اس بات کا یقین تھا کہ میرے پاس اسکی ویڈیو ریکارڈنگ ہے کیونکہ وہ سمجھ گئی تھی کہ ٹرائی روم میں کیمرہ لگا ہوا ہے تبھی تو میں نے انکی حرکتیں دیکھ کر دروازہ کھول دیا تھا، مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کیمرے سے میں ریکارڈنگ محفوظ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف لائیو ویڈیو دکھاتا ہے۔ اگر وہ شور مچا دیتی تو میری حالت بری ہوجانی تھی، مگر میرا تیر صحیح نشانے پر جا کر لگا اور وہ اس بات کا یقین کرتے ہوئے کہ اسکی ریکارڈنگ میرے پاس محفوظ ہے میرے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور تھی۔ فریحہ نے بے بسی سے میری طرف دیکھا اور پھر میرے لن کو دیکھنے لگی۔ پھر بولی میں صرف اسے چوسوں گی، اور جب تم فارغ ہوجاو گے تو مجھے تم یہاں سے جانے دو گے۔ میں نے کہا سالی تو چوسنا تو شروع کر، پھر دیکھتے ہیں کب فارغ ہوتا ہوں میں۔ میری بات سن کر فریحہ نے برا سا منہ بنایا اور پھر میرے لن کی طرف بڑھی، مگر وہ اسکو ہاتھ میں پکڑے ہوئے ڈر رہی تھی۔ پھر اس نے ہمت کر کے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اسکے ہاتھ بہت نرم اور ملائم تھے، انکا لمس میں نے اپنے لن پر محسوس کیا تو بہت سکون ملا مجھے۔ وہ بڑے آرام آرام سے میرے لن پر اپنا ہاتھ پھیر رہی تھی اور اسے بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کیسا لگا تجھے میرا لن؟؟؟ اس نے میری طرف دیکھا اور بولی یہ تو کافی بڑا ہے۔ میں نے کہا ہاں تیرے اس یار کی للی سے تو بہت بڑا ہے، وہ مل جائے مجھے ایک بار اسکی تو میں گانڈ ماروں گا اپنے اس مظبوط لن سے۔ پھر میں نے فریحہ کو کہا چل اب اسے منہ میں ڈال کر مزہ دے مجھے۔ فریحہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے دونوں ہونٹ میرے لن کی ٹوپی پر رکھ دیے اور انکو پہلے گول گول گھمانے لگی۔ پھر اس نے اپنا منہ کھولا اور زبان باہر نکال کر میرے لن پر پھیرنے لگی۔ کچھ دیر اپنی زبان میرے لن پر پھیرنے کے بعد اس نے میرے لن کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور لن منہ میں ڈال کر اپنا منہ آگے پیچھے کرنے لگی جس سے میرا لن اسکے منہ میں جاتا اوراسکی زبان سے رگڑ کھاتا ہوا واپس باہر آجاتا۔ وہ اب قدرے تیزی کے ساتھ میرے لن کے چوپے لگا رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے دونوں ہاتھوں کو گول گول گھما کر مجھے مزہ دے رہی تھی۔ وہ چوپے لگانے میں اتنی زیادہ ماہر نہیں تھی مگر پھر بھی مجھے اس کے چوپوں سے مزہ آرہا تھا ۔

کچھ دیر اپنے لن کے چوپے لگوانے کے بعد میں نے اسکے منہ سے اپنا لن پکڑا اور خود صوفے پر بیٹھ کر اسے کہا کہ وہ میری گود میں بیٹھے، اس نے گود میں بیٹھنے سے انکار کیا اور ایسے ہی کھڑی رہی تو میں نے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا اور اپنی گود میں گرا لیا۔ گود میں گرانے کے بعد میں نے اسے سیدھا کر کے بٹھایا اور اسکا برا ایک ہی جھٹکے میں اتار دیا۔ برا اتار کر میں نے اسکے 32 سائز کے چھوٹے مموں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دبایا تو اسکی ایک سسکی نکلی۔ میں نے پھر فورا ہی اسکی کمر میں ہاتھ ڈالا اور اسکے ممے اپنے منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیے۔ اس نے پہلے تو مجھے اس کام سے روکا اور میری گود سے نکلنے کی کوشش کی مگر میں نے جب اسے نہ نکلنے دیا اور اسکے ممے چوسنے شروع کیے تو اسے بھی آہستہ آہستہ مزہ آنے لگا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد میری دکان اسکی سسکیوں سے گونج رہی تھی۔ اب تو وہ اپنی گانڈ کو میرے لن پر رکھ کر بیٹھی تھی اور تھوڑا آگے پیچھے ہو کر میرے لن کے بھی مزے لے رہی تھی۔ ممے چوسنے کے ساتھ ساتھ میں نے اسکے چھوٹے گلابی نپلز کو بھی اپنی زبان سے رگڑنا شروع کر دیا تھا جس سے اسے بہت مزہ آرہا تھا اور وہ میری کمر پر اپنے ہاتھ زور زور سے پھیر رہی تھی، بلکہ اپنے ناخن پھیر رہی تھی میری کمر پر جسکا مجھے بھی مزہ آرہا تھا۔ کبھی میں اسکا ایک مما اپنے منہ میں لیکر اسکا نپل چوستا تو کبھی دوسرا مما منہ میں لیکر اسکا نپل چوسنا شروع کر جاتا۔ 

جب میں نے خوب جی بھر کر اسکے نپل چوس لیے اور ممے دبا لیے تو میں نے اسے شلوار اتارنے کو کہا۔ فریحہ اب خود بھی خاصی گرم ہوچکی تھی اور اسکی چوت میں آگ لگی ہوئی تھی اس لیے اس نے خود ہی اپنی شلوار اتار دی اور واپس میری گود میں آکر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر انہیں چوسنے لگی۔ نیچے میرا لن جب اسکی چکنی چوت پر لگا تو مجھے اس میں خاصا گیلا پن محسوس ہوا۔ میں سمجھ گیا کہ لوہا گرم ہے بس چوٹ مارنے کی ضرورت ہے۔ فریحہ مسلسل مجھے کسنگ کر رہی تھی، میں نے اسے ہلکا سا اوپر اٹھایا اور اسکی چوت پر اپنے لن کی ٹوپی سیٹ کر کے ایک زور دار جھٹکا اوپر کی طرف لگایا اور فریحہ اپنے وزن پر نیچے کی طرف آئی۔ اس ایک ہی جھٹکے میں میرا پورا لن فریحہ کی چوت میں اتر گیا تھا، اور اسکی چیخ دکان سے باہر تک جاتی اگر میں لن گھسانے سے پہلے اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر زور سے دبا نہ لیتا۔ جب پورا لن اسکی چوت میں گیا تو وہ ایک دم رک گئی، اسکے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے اور وہ ہلکی ہلکی چیخیں ابھی بھی مار رہی تھی۔ پھر اس نے کہا پلیز اپنا لن باہر نکال لو یہ بہت موٹا ہے، میں نے اتنا موٹا اور لمبا لن کبھی اپنی چوت میں نہیں لیا۔ میں نے کہا وہ تو تم نے کبھی وقاص کا لن بھی نہیں لیا تھا، مگر جب پہلی بار لیا تو مزہ آیا تھا نہ، اسی طرح میرا لن بھی تمہیں مزہ دے گا، پہلے سے زیادہ مزہ دے گا بس شروع میں ہی تھوڑی سی تکلیف ہوگی۔ یہ کہ کر میں نے فریحہ کی چوت میں اپنے لن کے گھسے مارنے شروع کر دیے۔ شروع کے کچھ گھسوں سے فریحہ کی درد بھری ہلکی چیخیں نکلتی رہیں پھر آہستہ آہستہ درد کی جگہ مزے سے بھرپور سسکیوں نے لینا شروع کر دیں۔ 5 منٹ کی چودائی کے بعد فریحہ کی سسکیوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوچکا تھا اور میں سمجھ گیا تھا کہ اسکی چوت پانی چھوڑنے کے قریب ہے، میں نے اپنے لن سے پمپ ایکشن اور بھی تیز کر دیا اور اسکی چوت میں تیز تز دھکے مارنا جاری رکھے، ساتھ ہی میں نے اپنی قمیص اوپر سینے تک اٹھا لی تھی اور شلوار تو چوپے لگوانے کے دوران ہی میں اتار چکا تھا اپنی۔ چند مزید دھکوں کے بعد فریحہ کا جسم اکڑنا شروع ہوگیا اور اسکی چوت ٹائٹ ہوتی چلی گئی۔ پھر ایک دم سے اسکی چوت سے گرم گرم لاوا نکلا جس نے میرے پورے لن کو جلا کر رکھ دیا۔ چوت کا پانی نکلنے کے بعد کچھ دیر فریحہ کے جسم کو جھٹکے لگتے رہے اسکے بعد اسکے چہرے پر میں نے خوشی کے آثار دیکھے۔ میں نے اسکو کہا مزہ آیا ہے چدائی کا یا نہیں؟؟؟ فریحہ بولی سچ پوچھو تو میری چودائی تو ہوئی ہی آج ہے، پہلے تو صرف وقاص خود ہی مزہ لے لیتا تھا اور بہت جلد چھوٹ جاتا تھا، مگر آج میرا پانی پہلی بار نکلا ہے۔ میں نے کہا چل پھر گھوڑی بن تیرا اور زیادہ پانی نکلواوں۔ یہ کہ کر میں صوفے سے نیچے اتر آیا اور فریحہ کو صوفے پر گھوڑی بنا کر خود اسکے پیچھے چلا گیا۔ اسکی 32 کی گانڈ کافی خوبصورت اور صاف شفاف تھی۔ گانڈ کا سوراخ بالکل تنگ تھا جس سے معلوم ہورہا تھا کہ اس نے کبھی گانڈ نہیں مروائی۔ مگر میرا اسکی گانڈ مارنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں تھا، میں نے اسکی چوت پر انگلی رکھ کر اسکو 2، 3 جھٹکے دیے اور جب اس میں دوبارہ سے چکناہٹ آنا شروع ہوگئی تو اپنے لن کی ٹوپی اسکی چوت میں ڈال دی اور پھر ایک ہی جھٹکے میں پورا لن اسکی چوت میں اتار دیا۔ اس جھٹکے کو فریحہ نے پوری طرح سے انجوائے کیا اور بولی ایک بار پھر باہر نکال کر اسی طرح اندر ڈالو اپنا یہ جن۔ میں نے لن دوبارہ سے باہر نکالا اور ٹوپی اسکی چوت پر فِٹ کر کے پہلے سے زیادہ زور دار دھکا لگایا جس سے میرا لن جڑ تک اسکی چوت میں اتر گیا تھا۔ پھر فریحہ بولی بس اب تیز تیز چودنا شروع کر دو۔ فریحہ کے کہنے پر میں نے اسکی چوت میں دھکے لگانا شروع کر دیے۔ میرے جسم اور اسکے چوتڑوں کے گوشت کے ملاپ سے دکان دھپ دھپ کی آوازوں سے گونج رہی تھی جبکہ انہی دھپ دھپ کی آوازوں میں فریحہ کی آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ اف ف ف ف ف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ ام م م م ۔۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ کی آوازیں بھی دکان کے ماحول کو گرما رہی تھیں۔ 5 منٹ تک میں فریحہ کو گھوڑی بنا کر چودتا رہا مگر اب کی بار اسکی چوت کا سٹیمنا پہلے سے زیادہ تھا۔ اسکے ممے ہوا میں جھول رہے تھے جنکو میں نے ہاتھ سے پکڑ رکھا تھا۔ 

5 منٹ کی چودائی کے بعد میں نے فریحہ کی چوت سے اپنا لن باہر نکالا اور اسکو صوفے پر بیٹھ کر ٹانگیں کھولنے کا کہا۔ فریحہ نے صوفے پر بیٹھ کر ٹانگیں کھولیں تو میں نے اسکو چوتڑوں سے پکڑ کر نیچے کی طرف کھینچا جس سے فریحہ کا سر صوفے کی ٹیک کے درمیان میں آگیا اور اسکی چوت میرے لن کے بالکل قریب ہوگئی۔ پھر میں نے ایک گھٹنا صوف پر رکھا اور دوسری ٹانگ نیچے ہی رہنے دی اور ایک بار پھر اپنا لن ایک ہی جھٹکے میں فریحہ کی نازک چوت میں اتار دیا۔ فریحہ کی ٹانگیں اوپر اٹھی ہوئی تھیں اور اسکے گھٹنے اسکے مموں کے قریب اسکے پیٹ کو چھو رہے تھے۔ میرا لن مسلسل نیچے کی طرف فریحہ کی چوت میں چدائی کرنے میں مصروف تھا کچھ دیر ایسے ہی چودائی کرنے کے بعد میں نے فریحہ کو صوفے پر ہی لٹا دیا اور خود اسکے اوپر آگیا اور اپنے دھکے جاری رکھے۔ میرے ہر دھکے پر فریحہ ایک نئے مزے سے آشنا ہورہی تھی۔ جبکہ میں اسکے ممے منہ میں لکر چوس رہا تھا۔ کچھ دیر تک اسکے اوپر لیٹ کر چودتا رہا پھر ایک بار دوبارہ سے اسکی چوت سکڑنا شروع ہوگئی اور مجھے اپنی ٹوپی پر اسکی چوت کی دیواروں کی رگڑ بھی پہلے سے زیادہ محسوس ہونے لگی۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میرے لن میں ایک باریک دانا ٹٹوں سے ہوتا ہوا لن کی رگوں سے گزر کر ٹوپی کے سوراخ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میں نے فریحہ کو بتایا کہ میں چھوٹنے والا ہوں تو اس نے کہا میں نے گولی کھائی ہوئی ہے اندر ہی چھوڑ دو کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ کہتے ہی مجھے اپنے لن پر فریحہ کی چوت کا پانی محسوس ہونے لگا وہ ایک بار پھر سے پانی چھوڑ چکی تھی۔ میں نے بھی چند مزید جھٹکے مارے اور پھر فریحہ کی چوت میں ہی اپنا لاوا اگلنا شروع کر دیا۔ جب سارا پانی میں فریحہ کی چوت میں نکال چکا تو میں نے اپنا لن اسکی چوت سے نکال کر اسکے منہ کی طرف بڑھا دیا جسکو وہ بلا جھجھک شوق کے ساتھ چوسنا شروع ہوگئی۔ اس نے میرے لن پر لگا اپنی چوت اور میرے لن کے پانی کے مکسچر کو اچھی طرح چاٹ کر صاف کر دیا تھا۔ لن صاف کروانے کے بعد میں نے اپنی شلوار پہن لی جبکہ فریحہ اب اپنا برا پہننے میں مصروف تھی۔ برا پہننے کے بعد اس نے اپنی شلوار پہنی اور پھر ٹرائی روم میں جا کر اپنی قمیص پہننے لگی۔ میں بھی ٹرائی روم میں چلا گیا وہاں وہ برا ویسے ہی پڑے تھے جو وقاص میرے سے لیکر گیا تھا ٹرائی کروانے کے لیے۔ مگر برا ٹرائی کرنے کی بجائے وہ اپنا لن باہر نکال کر کھڑا ہوگیا تھا۔ میں نے ان میں سے ایک اپنی پسند کا برا فریحہ کی طرف بڑھایا اور کہا یہ میری طرف سے گفٹ سمجھ کر رکھ لو۔ فریحہ نے برا دیکھا اور بولی کیا میں دوبارہ بھی اس لن کو لینے کے لیے یہاں آسکتی ہوں؟؟؟ میں نے کہا جب تمہارا دل کرے میرا لن تمہیں چودنے کے لیے تیار ہے۔ اور وقاص کے لن سے بھی چدائی کروا کے دیکھ لینا دوبارہ سے اس سے زیادہ مزہ تمہیں یہیں پر ملے گا۔ میری بات سن کر فریحہ نے کہا اس بہن چود کو تو میں اب منہ بھی نہیں لگاوں گی، البتہ تم نے میری چودائی کر کے بہت مزہ دیا ہے تم سے چدوانے ضرور آوں گی دوبارہ۔ یہ کر کہ فریحہ نے میرا دیا ہوا برا اپنے شاپنگ بیگ میں ڈالا اور میرے ہونٹوں پر ایک پیار بھری چمی کرنے کے بعد باہر کی طرف جانےلگی۔ مِں نے آگے بڑھ کر دروازے کا لاک کھولا اور فریحہ مجھے دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے وہاں سے چلی گئی


Post a Comment

0 Comments