قسط نمبر4,3
ہوئے مڑ کر مستی بھری آنکھوں سے
مجھے دیکھا اور مسکرا کر اندر چلی
گئی، میں ابھی تک اپنی بیٹی
نصرت کے حسن کے سحر میں گرفتار
وہیں کھڑا نصرت کے حسن کو چار
کہ نصرت کے چہرے پر بہت بھلا لگ چاند لگاتے کوکے کو سوچ رہا تھا جو
رہا تھا، عورت کا کوکا تو میری
کمزوری تھا میں نے مدثرہ سے بھی
فرمائش کر کے اس کو کوکا ڈالنے کا
کہا تھا نصرت کیچن میں جا چکی.تھی اور میں ابھی تک وہیں کھڑا
سوچ رہا تھا کہ نصرت کے اندر اتنی
جنونیت اور گتمی بھری ہوئی ہے کہ
وہ رشتوں کا احترام بھی بھول
چکی ہے وہ بھی اپنی جگہ سچی
تھی کیونکہ چڑھتی جوانی کے
ہاتھوں مجبور تھی اور وہ اپنی
پیاس بجھانے کےلیے اپنے سگے باپ
کے رشتے کو بھی روندنے جا رہی
تھی نصرت کی حالت کافی خراب
بھی چاہتا تھا کیونکہ یہ سب غلط
ہی تو تھا، باپ بیٹی کے درمیان ایسا
غلط تعلق قائم نہیں ہو سکتا تھا اور
ویسے بھی یہ فطری اصولوں کے
بھی خلاف تھا لیکن نصرت اس سب
سے عاری ہو چکی تھی، گرم بے قابو
رشتہ مٹا دیا تھا اسے بس اب صرف جوانی نے اس کے دماغ سے باپ کا
اپنی منزل نظر آ رہی تھی، میں
انہیں سوچوں میں گم کھڑا تھا کہ.سامنے کمرے سے میری چھوٹی بیٹی
سعدیہ نکلی میں نے نظر اٹھا کر اسے
دیکھا تو وہ مجھے دیکھ کر مسکرا
پڑی میں بھی مسکرا دیا اور وہ
میرے قریب آ کر بولی کہ ابو یہاں
کیوں کھڑے ہیں بیٹھ جائیں میں تو
نصرت کے حسین حملے سے ایسا
نڈھال تھا کہ کچھ بول نہ سکا اور
سعدیہ کو مسکراتے ہوئے دیکھا اور
بے دھیانی میں اس کا اوپر سے نیچے
تک جائزہ لیا جب میں سعدیہ کا.جائزہ لے رہا تھا تو میں چونک گیا کہ
وہ تو مجھے دیکھ رہی اس لیے
جلدی سے میں نے نظر اٹھا کر سعدیہ
کا چہرہ دیکھا تو وہ نیچے دیکھتے
ہوئے اگے برھ گئی مجھے سعدیہ کے
چہرے پر ہلکی سی لالی دوڑفی نظر
آئی، میں بوکھلا سا گیا کہ یہ میں
نے کیا کیا کہیں سعدو نے دیکھ نا لیا
ہو، ہم گھر والے اسے اسنام سے ہی
کر اڑ سا گیا لیکن سعدو میری طرف پکارتے ہوں، میرا بھی رنگ یہ دیکھ
دیکھے بغیر واشروم چلی گئی اور
صحن میں ہی چارپائی پر بیٹھ گیا
اور نا چاہتے ہوئے بھی خیال سعدو
کی طرف چلا گیا، سعدیہ بھی کافی
خوبصرت لڑکی ہے لیکن نصرت کے
مقابلے میں سعدو کا جسم کمزور ہے
اس کا فگر بھی نصرت سے کم ہے
سعدو نے بھی ناک میں کوکا ڈالا ہوا
تھا لیکن اس نے کوکا کافی عرصہ
پہلے ڈلوایا تھا لیکن میرا کبھی اس
طرف غلط خیال نہیں گیا تھا کیوںکہ وہ میری بیٹی تھی، سوچتے ہوئے
شیطان نے میرے ذہن کو ورغلایا اور
میں اپنی بیٹیوں کے کوکے کا مقابلہ
کرنے لگا کہ کس کو زیادہ خوبصورت
لگتا ہے کوکا، میں تصور میں اپنی
بیٹیوں نصرت اور سعدیہ کے کوکے
کمپیئر کر رہا تھا اور میں نے نتیجہ
نکالا کہ نصرت کو کوکا زیادہ
خوبصورت لگ رہا ہے سعدو کے
مقابلے میں اور میں یہ سوچ کر
مسکرا گیا اتنے میں سامنے کیچن سےنصرت چائے اٹھا کر نکلی جو ابھی
تک دوپٹے کے بغیر تھی اور اس کے
تنے ہوئے ممے اکڑ کر کسے قمیض میں
سے صاف جھانک رہے تھے نصرت کے
ممے38 کے سائز کے تھے اور مموں کی
اٹھان بہت زیادہ تھی جس سے
نصرت کا سیکنہ کافی بلند ہو گیا تھا
نیچے پتلی کمر انتہائی شاندار لگ
رہی تھی نصرت کمر لچکا کر میری
طرف چل رہی تھی جس سے نصرت
کے ممے ہوا میں لہرانے لگے میں بڑےانہماک سے اپنی بیٹی کے ہلتے ممے
دیکھ رہا تھا نصرت کپڑوں میں ہونے
کے باوجود بھی ننگی لگ رہ تھی
میں نے نصرت کے چہرے کی طرف
دیکھا تو نصرت مدہوش گہری
نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھتی
ہوئی میری طرف چلتی ہوئی ایک
سیکسی مسکراہٹ کے ساتھ میر
طرف بڑھ رہی تھی نصرت کے ناک
میں سجا کوکا نصرت کے حسن کو
چار چاند لگا رہا تھا جو کہ مجھےنڈھال کر رہا تھا اور نصرت نے اپنی
لمبی گت اپنے مموں پر لٹکا رکھی
تھی، اپنی بیٹی کے دمکتے انگ انگ
کو دیکھ کر میں بے حال تھا اتنے
نصرت اگے بڑھی اور نشیلی آنکھوں
سے مجھے دیکھتی ہوئ جھک کر
مجھے چا ئے پیش کی، نصرت
مسلسل مجھے ہی دیکھ رہی تھی
نصرت نے مست آنکھیں میرے ساتھ
لاک کر دیں اور نصرت اور میں اویک
دوسرے میں گم سے ہو گئے نصرت
مزید جھک گئی جس سے نصرت کے
مموں کی لکیر واضع ہو گئی اور میں
نصرت کے مموں کی لکیر کو غورتے
ہوئے چائے نصرت کے ہاتھ سے پکڑ لی
نصرت چائے پکڑاتے ہوئے مزید
جھکی اور اپنا منہ میرے منہ کے
قریب کر کے اپنا ناک میرے ناک کے
ساتھ جوڑ دیا اور مستی بھی لال
نشیلی آنکھوں سے پیار سے مجھے
دیکھنے لگی، نصرت کچھ دیر ایسے
ہی اپنا ناک مکرے ساتھ جوڑے کھڑی
رہی نصرت کی اس حرکت سے میں
چونک گیا اور مزے سے نڈھال ہونے
لگا، نصرت بھی بے قراری سے تیز
سانس لینے لگی جس سے اس کا
سانس پھلنے لگا اور اس کے پھولتے
ناک میں اوپر نیچے ہوتا کوکا مجھے
کو دیکھ کر مچل سا گیا اور مرا دل بےحال کر گیا میں نصرت کے کوکے
تیز تیز دھرکنے لگا ابھی میں اس
میں مست تھا کہ نصرت نے آگے بڑھ
کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے ملا
کر چومتے ہوئے چوس لیے، اور اوپر
،اٹھ کر مڑ کر کیچن میں جانے لگی
میں نصرت کی اس حرکت سے تڑپ
کر رہ گیا نصرت کے نرم ہونٹوں کے
لمس نے مجھے جنجھوڑ کر رکھ دیا
اور میں تڑپ کر رہ گیا، مجھے اپنی
بیٹی یہ ادا بھا سی گئی اور میں
مستی سے نصرت کو کیچن میں جاتا
دیکھنے لگا، کیچن کے دروازے پر
نصرت نے مڑ کر مجھے دیکھا اور
ایک ادا سے مسکرا سی گئی نصرت
کے چہرے پر ہلکی سی شرم سے لالی
ابھر چکی تھی نصرت جب میری
طرف دیکھرہی تھی تو اس دوران
سعدو بھی واشروم سے نکل آئی اور
ہم دونوں کو مسکراتا دیکھ لیا میں
نے جلدی سے نظر نصرت سے چرا کر
سعدو کو دیکھا جو کے ہماری طرف
ہی دیکھ رہی تھی میرے دیکھنے پر
سعدو نے منہ نیچے کر لیا اور انجان
سی بن کر ہاتھ دھونے لگی میں
خاموشی سے چائے پیتے ہوئے گزرےلمحوں کو یاد کرنے لگا میرا لن تن کر
فل کھڑا تھا اور اپنی بیٹی کے جسم
کا سرور ا ھی تک میرے اندر تھا میں
نے چائے ختم کی، اب ڈیرے پر جانے
کا ٹائم ہو چکا تھا میں اٹھا اور ڈیرے
پر چلا گیا ڈیرے پر کام کیا اور دودھ
نکال کر گھر کی طرف چل پڑا، گھر
گیا تو گھر خالی سا پڑا تھا میری
بیوی ابھی شاید گھر نہیں آئی تھی
میں کیچن کی طرف بڑھا تو سامنے
سے اتنے میں نصرت کیچن سے نکل
کر برتن اٹھا کر ٹوٹی کی طرف جا
رہی تھی میں نصرت کو دیکھ کر رک
گیا نصرت تو اب پہلے سے بھی زیادی
غضب ڈھا رہی تھی نصرت نے ایک
شاٹ سا کسا ہوا کھلے گلے والا
قمیض ڈالا ہوا تھا جس نے نصرت کے
ممے جکڑے ہوئے تھے اس بار نصرت
برا کے بغیر تھی جس سے قمیض
میں نصرت کے ممے صاف نظر آ رہے
تھے نصرت کے بڑے بڑے نپلز قمیض
میں سے صاف نظر آرہے تھے جب کہ
نصرت کے چاک بھی کافی اونچے
تھے جس میں سے نصرت کا سفید
جسم جھانک رہا تھا اور اوپر سے
لمبی گت گانڈ سے ٹکرا رہی تھی
نیچے نصرت نے ایک کسی ہوئی
شلوار ڈال رکھی تھی جس نے نصرت
کے پٹ اور ٹانگیں کسی ہوئی نظر آ
رہی تھیں اوپر سے نصرت کی شلوار
سے ننگی پنڈلیاں نظر آ رہی تھی میں
اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھ
کر حیران رہ گیا میری بیٹی اس
لباس میں فل بمب لگ رہی تھی اتنے
میں نصرت ٹوتمٹی پر پہنچ کر رکی
اور نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھ
کر مسکرا دی میں اپنی بیٹی کے
سیکسی جسم کو دیکھ کر مست ہو
رہا تھا نصرت کا آدھا سینا ویسے ننگا
تھا جبکہ آدھا کپڑوں میں ویسے نظر
آ رہا تھا، نصرت کے اکرے نپلز قمیض
سے صاف نظر آ رہے تھے نصرت نے
مسکرا کر اپنی گت آگے مموں پر کی
اور گانڈ باہر نکال کر بیٹھ گئی
نصرت نے ہائی ہیل ڈال رکھی تھی
جس پر نصرت پاؤں بھار بیٹھ گئی
نصرت کی گانڈ جس سے اوپر سی ہو
گئی شلوار نے نصرت کی شلوار نے
،نصرت کے پٹ کس کر واضع کر دیے
نصرت نظر جھکا کر اپنے کام میں
مشغول ہو گئی، میں نظر گھما کر
اپنی بیٹی کے سیکسی جسم کا
جائزہ لینے لگا، جیسے ہی میری نظر
گھوم کر نصرت کے پاؤں کے
درمیان پڑی تو میرے پاؤں کے نیچے
سے زمین کھسکنے لگی، سامنے کا
منظر دیکھ کر میرے کان لال ہو گئے
سامنے میری سگی بیٹی کی شلوار
پھٹی ہوئی تھی اور سامنے سے میری
بیٹی نصرت کی نرم و نازک اور گلا
بی رنگ کی کنواری پھدی باہر
جھانک رہی تھی میں یہ منظر دیکھ
کر بوکھلا سا گیا اور میں نے نظر اٹھا
کر اپنی بیٹی کے چہرے کو دیکھا جو
کہ شرم سے لال ہو رہا تھا نصرت
بھی اپنے باپ کو اپنی پھدی دکھانے
پر شرما تو رہی تھی پر اس سب پر
اس کی حوس اور اس کی بے قابو
جوانی غالب تھی نصرت نے نشیلی
آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا اور ہلکا
سا مسکرا کر شما کر منہ نیچے کر
گئی میں اپنی سگی بیٹی کی ننگی
پھدی دیکھ کر مچل کر رہ گیا تھا
نصرت کی کی پھدی کے گلابی
ہونٹوں کو کسی شلوار کے پھٹے
کناروں نے دبوچ کر کھول رکھا تھا
جس سے نصرت کی پھدی کا کھلا گ
لابی دہانہ صاف نظر آ رہا تھا نصرت
نے شاید یہ اہتمام پہلے سے کر رکھا
تھا کہ ہاتھ لگائے بغیر اس کی پھدی
کھل جایے اور اس باپ اپنی بیتی
کی پھدی کا خوب نظارہ کر لے، یہ
منظر میری جان نکال رہا تھا اپنی
کے سامنے ننگی دیکھ کر میں بے
حال بیٹی کی کنواری پھدی اپنی آنکھوں
تھا میرا خون جوش مار رہا تھا اور
میں بے قابو ہو رہا تھا اتنے میں
نصرت نے اپنی پھدی کو بھینچ کر
بند کیا اور اور پھر پھدی کے ہونٹ
کھول دیے جس کے ساتھ پیشاب کی
ایک لمبی دھار شر شر کی آواز سے
بہنے لگی، اپنی بیٹی کی پھدی سے
پیشاب کی دھار نکلتی دیکھ کر میں
مچل سا گیا میں مزے کی بلندیوں پر
تھا، ابھی نصرت کی پھدی سے ایک
دھار نکلی ہی تھی کہ کہ نصرت نے
اپنی پھدی کے ہونٹ دبا کر پیشاب
روک لیا جس سے پھدی کے ہونٹ
آپس میں مل گئے اور پھدی کے دہانے
سے چنس قطرے گرنے لگے میں یہ
منظر دیکھ کر بے حال تھا اور نظر
اٹھا کر نصرت کی طرف دیکھا تو وہ
مجھے ہی دیکھ رہی تھی میری بے
قراری دیکھ نصرت مسکرا دی اور
مجھے آنکھ مار کر اپنی پھدی کی
طرف اشارہ کیا میں نے جیسے ہی
نصرت کی پھدی کو دیکھا نصرت نے
اپنی پھدی کھول دی جس سے پہلے
سے زیادہ زور سے پیشاب کی دھار
نکل کر بہنے لگی اور میں بے قراری
سے اپ ی بیٹی کی پھدی سے پیشاب
نکلتا دیکھتے ہوئے نڈھال ہونے لگا
نصرت میرے سامنے پھدی کھول کر
پیشاب بھی کرتی رہی اور اپنے کام
میں بھی مشغول رہی میں نصرت کو
ننگا دیکھ کر بے ھال تھا نصرت نے
پیشاب کر کے پھدی کو بند اور کھول
کر باقی قطرے گرائے اور جلدی سے
پھدی کو ڈھانپ لیا اور اٹھ کر برتن
اٹھا کر اندر چلی گئی میں صحن
میں بے حال کھڑا تھا میری بیٹی
نصرت میرے ساتھ کھیل کھیل رہی
تھی میرا لن فل تن چکا تھا اور میں
مزے سے بے حال تھا میں بھی گھر کا
سرسری جائزہ لینے لگا کہ گھر میں
کوئی ہے کہ نہیں، مجھے لگا کہ گھر
میں کوئی نہیں کیوں نہ اگر کوئی
ہوتا تو اب تک باہر آ چکا ہوتا، یہ
سوچ کر میں بھی اندر کیچن میں چ
لا گیا تو سامنے نصرت سنک پر برتن
رکھ رہی تھی میں اند چلا گیا اور
کولر سے پانی نکال کر پینے لگا اور
سوچنے لگا کہ کیسے نصرت کے ساتھ
کچھ کروں گرمی نے بے حال کر رکھا
تھا جب کہ دوسری طرف اتنا کچھ
ہونے کے باوجود میں جھجھک بھی
رہا تھا کیونکہ نصرت میری سگی
بیٹی بھی تھی، نصرت بھی شاید
اس انتظار میں تھی کہ پہل میں
کروں کیونکہ نصرت بھی جھجھک
رہی تھی آخر میں اس کا باپ تھا
اسے بھی شرم آ رہی تھی، اور ویسے
بھی سنک پر وہ برتن رکھ چکی تھی
اور اب ویسے برتن ادھر ادھر رک کر
وقت گزار رہی تھی میں بھی سمجھ
گیا تھا اس لیے پانی پیتے ہی ہاتھ
بڑھا کر اپنی بیٹی نصرت کی گت پکڑ
کر پیار سے کھینچ دی نصرت کا سر
جھٹکے سے اوپر ہوا اور اس کھ منہ
سے ایک ہلکی سی سسکاری نکل کر
میرے کانوں میں گونج کر مجھے
گھائل کر گئی، ایسی سسکاری سنے
عرصہ ہو گیا تھا، نصرت کی
سسکاری نے مجھے بے قابو کر دیا اور
میں نے آگے بڑھ کر اپنی بیٹی کو
پچھے سے باہوں میں بھر کر دبوچ لیا
، اپنی بیٹی نصرت کے نرم وملائم
جسم کا لمس میرے اندر اتر گیا
نصرت خود کو میری جپھی میں پا
کر کراہ کر رہ گئ اور کانپتی ہوئی
آہیں بھرنے لگی، میں نے آگے منہ کر
کے نصرت کے ملائم گال کو منہ میں
بھر کر سختی سے چوس کر پچ کی
آواز سے چھوڑ دیا جس سے نصرت
کراہ کر رہ گیی اور نصرت کی
اونچی کراہ کچن میں گونج گئی
میں نے سختی سے نصرت کو دبوچ
کر نصرت کا گال چوسنا شروع کر دیا
اور میرا کہنی جتنا لمبا لن نصرت کی
جاری ہے ۔۔
0 Comments