جوان بیٹیوں کا رس قسط نمبر 10,9

جوان بیٹیوں کا رس
قسط نمبر10,9

بھی نصرت کو پیار سے دیکھنے لگا
نصرت آٹا چھوڑ کر مجھے ہی
دیکھتے جا رہی تھی نصرت نے اپنی
آنکھیں مجھ سے لاک کر دیں نصرت
کی آنکھوں میں بلا کی حوس اور
پیاس تھی اور وہ مسلسل میری
طرف آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایسے
دیکھ دہی تھی جیسے اسے دنیا
جہان کی خبر نہیں نصرت اور میں
ایک دوسرے میں مست تھے کہ اتنے
میں گیٹ کھلا اور سامنے نصرت کا
سے نصرت اور میں ایسے چونک گئے
اور نصرت جو کے چڈے کھول کر
مجھے پھدی دکھا رہی تھی جلدی
سے گھبرا کر چڈے سمیٹ کر جلدی
سے آگے ہو کر آٹے میں ہاتھ ڈال کر
گونھنے لگی میرا سسرال ہماری گلی
میں ہی دو گھر چھوڑ کر رہتا ہے
نصرت کے دو ماموں ہیں بڑے ماموں
کا نام ممتاز ہے جبکہ چھوٹے کا نام
نواز ہے، اس وقت سامنے گیٹ پر
نصرت کا چھوٹا ماموں تھا اور
جیسے ہی وہ گیٹ کھول کر اندر
داخل ہوا تو سامنے ہم باپ بیٹی کو
ایک دوسرے کی طرف عجیب
،نظروں سے دیکھتا پا کر چونک گیا

تھا کہ جس سے اس کا شک ٹھیک جا
رہا تھا ہم دونوں باپ بیٹی کے
درمیان کچھ غلط چلا رہا تھا، ادھر
نصرت کا گھبراہٹ سے رنگ اڑا ہوا
تھا اور اس نے جلدی سے قمیض اگے
کر کے ننگی پھدی کو ڈھانپ لیا
نصرت کا ماموں نصرت کی بدلتی ح
الت کو دیکھ رہا تھا جو کہ گیٹ سے
اندر آچکا تھا اور میری طرف بڑھ رہا
تھا.، میں سمجھ چکا تھا کہ وہ ہمیں
ایک دوسرے کو غلط نظروں سے
دیکھتے ہوئے پکڑ چکا ہے لیکن میں
نے اپنے آپ کو نارمل رکھا لیکن
نصرت نارمل نہیں تھی اس کا رنگ
کیے اپنے کام میں مگن تھی، وہ کوئی
بات بھی نہیں کر رہی تھی، نصرت
اپنے مامووں سے کافی فرینک تھی
وہ جب آتے وہ گرمجوشی سے ملتی

تھی لیکن آج وہ گرمجوشی نہیں
تھی آج نصرت چپ چپ تھی نواز
میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور وہ بھی
پوچھنے لگا کہ آج خیر ہے کھانا لیٹ
بن رہا ہے تو میں نے بہانہ لگا دیا اور
ہم باتیں کرنے لگے اس دوران میں نے
نوٹ کیا کہ نواز بھی نصرت عجیب
نظروں سے دیکھ رہا ہے میں سمجھ
گیا کہ وہ بھی نصرت کو غلط نظروں
سے دیکھ رہا ہے میں نے نصرت کی
طرف دھیان دیا تو وہ بھی کبھی
کبھی نگاہ اٹھا کر اپنے ماموں کو
گہری آنکھوں سے دیکھتی اور بیچ
میں مسکرا دیتی، میں سمجھ گیا کہ
ان ماموں بھانجی میں بھی وہی چل
رہا ہے جو ہم باپ بیٹی میں چل رہا
ہے میں نے نظر گھما کر دیکھا تو نواز
مستی سے سگریٹ کے کش لگاتے
ہوئے اپنی بھانجی کو ہی دیکھ رہا
تھا جبکہ دوسری طرف نصرت بھی
اپنے ماموں سے آنکھ لڑا رہی تھی
جب میں نے نصرت کو دیکھا تو اس

نے مسکرا کر اپنے ماموں کو دیکھا
اور پھر میری طرف دیکھا تو میں
اس کو دیکھ کر مسکرا دیا نصرت نے
میری طرف دیکھا تو میں نے اسے
آنکھ کے اشارے سے قمیض آگے سے
اٹھانے کا کہا اور نظر ہٹا لی نصرت آٹا
گوندھ چکی تھی اس لیے اس نے اب
برتن سمیتنے تھے نصرت نے اپنے
ماموں کو مست نگاہوں سے دیکھا
اور اپنا قمیض ہٹا کر اپنی پھدی
ننگی کر دی نواز نصرت کی ننگی

پھدی دیکھ کر چونک گیا اور مجھے
دیکھا کہ کہیں میں تو نہیں دیکھ رہا
پر میں نے ایسے ظاہر کیا جیسے
مجھے پتا ہی نہیں نواز پھر نصرت
کی پھدی دیکھنے لگا میں نے دیکھا
تو نصرت مسکراتی ہوئی اپنے ماموں
کو اپنی پھدی کا نظارہ کرواتی برتن
سمیٹ رہی تھی جبکہ اس کا ماموں
بڑے انہماک سے اپنی بھانجی کی
پھدی دیکھ کر اپنی آنکھیں سیکتا
رہا، نصرت کچھ دیر تک اپنی پھدی

کے نظارے کراوتی رہی اور پھر اٹھ
کر چلی گیی اور نواز میرے ساتھ
باتیں کرتا رہا اور پھر چلا گیا کچھ
دیر بعد کھانا بھی بن گیا اور ہم کھانا
کھانے لگے، کھانا کھا کر ہم فری ہوئے
تو نصرت اور سعدیہ برتن سمیٹنے
لگیں جب کہ میں کچھ دیر ٹی وی
دیکھنے لگا کہ نصرت اور اس کی
ماں بھی آگئیں سعدو کیچن میں
تھی میں واشروم میں چلا گیا واپس
نکلا تو سامنے کیچن میں سعدو

گیا تو اتنے میں اس کی نظر مجھ
سے ٹکرائی میں سعدو کو ہی دیکھ
رہا تھا سعدیہ کی آنکھوں میں بھی
ایک عجب سی مستی پھیل گئی اور
سعدمسکرا کر مجھ سے نظر چرا کر
دوسری طرف منہ کر گئی میں
سمجھ گیا کہ سعدو شرما گئی ہے
میں ہاتھ دھو کر کیچن میں چلا گیا
سعدو سنک پر کھڑی تھی میرے اندر
آنے کی آہٹ سے وہ چونک گئی اور

پیچھے دیکھے بغیر سمجھ گئی کہ
میں اس کا باپ ہوں وہ منہ نیچے
کھڑی تھی گھبراہٹ صاف محسوس
ہو رہی تھی میں نے پیچھے سے جا
کر سعدو کو جپھی میں لے کر دبوچ
لیا سعدو پیچھے سے میرے ساتھ جڑ
گئی میرا لن اس کی گانڈ چبھ گیا
میں نے سعدو کے گال کو کس کر
چوس لیا سعدو کی ہلکی سے مزے
بھری کراہ نکل گئی اور سعدو
بےقراری سے کراہ بھر کر رہ گئی میں

نے سعدو کے ہونٹ کس کر چوس لیے
سعدو نے آنکھیں بند کر کے میرا ستھ
دینا شروع کردیا میں نے سعدو کی
آرام سے اپنی زبان میرے منہ میں ڈ زبان کھینچ کر چوس لی سعدو نے
ال دی جسے میں نے چوس کر سعدو
کو نڈھال کر دیا اتنے میں کیچن کے
دروازے پر نصرت نمودار ہوئی اور
مجھے اور سعدو کو ایک دوسرے
میں مگن دیکھ کر رک کر ہمیں
دیکھنے لگی، سعدو نصرت کے آنے

سے چونک کر گھبرا کر گئی اور خود
کو مجھ َے چھڑوا لیا، نصرت کو
دیکھ کر سعدو شرما گئی اور جلدی
سے کیچن سے نکل گئی، نصرت جو
کہ دروازے پر کھڑی تھی سیدھی
اندر آگیی اور مجھے باہوں میں لے کر
جپھی ڈال کر میرے ہونٹ چوستے
ہوئے اپنے پہاڑ جیسے ممے میرے
سینے میں دبا دیا نصرت ہانپتی ہوئی
بےقراری سے مجھے چوس رہی تھی
اور میری کمر کو مسلتے ہوئے میرا لن

اپنے چڈوں میں دبوچ لیا نصرت
میری بیٹی میرے ساتھ چمٹی مجھے
چوس رہی تھی، نصرت رک کر میرے
گال چومتی ہوئی بولی، ابو اب
لن پر اپنی پھدی رگڑنے لگی میں بولا برداشت نہیں ہوتا اور جھٹکے مار کر
تھوڑا صبر کرو نصرت، موقع ملے گا
تو بخشوں گا نہیں، نصرت کراہ کر
بولی ابو صبر ہی تو نہیں ہوتا، میں
بولا، پھر یہیں چود دوں، نصرت
سسکار کتر بولی اف ابو میں تو

چاہتی ہوں ایک منٹ کی بھی دیر نہ
ہو اور آپ کا لن اپنی پھدی میں لے
لوں میں بولا میں تو ڈال دیتا ہوں
اپنی ماں کو خود سنبھال لینا نصرت
مسکرا کر بولی وہ تو جان سے مار
دے گی ہم دونوں کو، میں بولا یہ
بتاؤ نصرت یہ اپنے ماموں کو کب
سے تنگ کر رہی ہو، نصرت بولی ابو
میں کہاں کر رہی تھی وہ تو وہ کافی
دنوں سے میرے پیچھے پڑے ہوئے
،ہیں پر میں نے لفٹ نہیں کروائی
میں بولا کل تو بڑی کھول کے پھدی
دکھا رہی تھی، نصرت میری آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر بولی، آپ کو بھی
تو دکھا رہی تھی، اور میرے ہونٹ
چوس کر کراہتی ہوئی لن پھدی پر
رگرنے لگی اور جلد ہی پانی چھوڑ کر
فارغ ہو گئی اس دوران سعدو بھی
کیچن میں آ گئی اور ہمیں ایک
،دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگی
ہم فارغ ہو کر کیچن سے نکل گئے اور
سو گئے، صبح کے وقت مجھے لن پر
کسی گیلی چیز کا احساس ہوا میں
نے جیسے ہی آنکھ کھول کر دیکھا تو
حیران رہ گیا، میری چھوٹی بیٹی
سعدیہ میرے کہنی جتنے لن کو نکال
کر مسلتی ہوئی ٹوپے کو منہ میں لے
کر چوس رہی تھی، سعدو کو اپنا لن
چوستا دیکھ کر بولا خیر تو ہے رات
کو تو بڑا شرما رہی تھی اب سیدھا
لن ہی منہ میں ڈال لیا، سعدو نے
مسکراتے ہوئے پچ کی آواز سے لن منہ
نکالا اور بولی ابو شرما کر اس مزےسے محروم کیوں رہوں، جب نصرت

مزے لے رہی ہے تو مجھے کیا ہے میں
بھی لے سکتی ہوں اور آگے ہو کر
میرے لن کی موری سے ہونٹ ملا کر
فرنچ کس کرتی ہوئی مدہوشی سے
مجھے دیکھنے لگی، اپنی بیٹی کے
نرم ہونٹ لن پر محسوس کر کے میں
کراہ گیا اور آہ بھر کر رہ گیا، سعدو
نے ہونٹ دبا کر سخیتی میرے لن کی
موری کو چتھ کر چوس لیا میں مزے
سے کراہ گیا سعدو نے لن منہ سے نکالا اور لن کی موری کے کھول کر زبان
کی نوک پھیرتے ہوئے لن کے ٹوپے کو
کس کر منہ میں بھر کر اپنے ہونٹ
،سختی سے دبا کر چوسنے لگی
سعدو مسلسل میرے لن کو چوستے
ہوئے دبا کر چتھنے لگی سعدو لن کو
ایسے چوس رہی تھی جیسے بچہ
تھن چوس رہا ہوتا ہے، سعدو نے
سختی لن کو کی گرفت میں لے
کر دبا کر چوپا مار کر پچ کی آواز ہے
لن چھوڑ دیا اور لن کی موری دوبارہکھول کر اپنا ناک میرے لن کے قریب
کیا اور اپنا کوکا میرے لن کی موری
میں دبا کر مسل دیا جس سے لن
سعدو کا کوکا لن کی موری میں دب
گیا اور مین کوکے کو لن کی موری
میں محسوس کر کے تڑپ کر کراہ گیا
، کوکے کو لن پر محسوس کر میں
مزے سے پاگل ہو گیا سعدو نے لن
کوکے پر دبایا اور کوکے کو میرے لن
کی موری کے اندر رگڑنے لگی لن کی
موری نے کوکے کو پورا اپنا اندر لے لیاتھا، کوکے کی رگڑ نے مجھے اڑا کے
رکھ دیا تھا سعدو مسلسل کوکے پر
لن مسل کر مجھے نڈھال کر چکی
تھی میں مزے سے بے ھال تھا کوکے
سے مزے کی لہریں لن سے میرے اندر
اتر کر مجھے نڈھال کر گئیں اور میں
بے اختیار تڑپ کر رہ گیا، مجھے لن
کی طرف مزے کا سیلاب جاتا ہوا
محسوس ہوا جس کو سعدو نے بھی
بھانپ لیا اور جلدی سے میرے لن کو
ہونٹوں میں کس کر دبوچ لیا اور
ساتھ ہی میرے منہ سے مزے کی کرلا
ٹ نکلی اور میں درمیان سے اٹھ گیا
اور میرے لن نے جھٹکا مار کو ایک
لمبی منی کی دھار سعدو کے گلے میں
مار جسے سعدو پی گئی میں مزے
سے کراہتا ہوا جھٹکے مارتا اپنی
بیٹی سعدو کے میں میں فارغ ہو رہا
تھا سعدو اپنے باپ کے لن کو میں
سختی سے دبوچے اپنے باپ کی
نکلتی منی اپنے پیٹ میں اتار رہی
تھی میرا لن جھتکے مارتا ہوا سعدوکے منہ چھوٹ رہا تھا سعدو نے لن
پوری طرح سے نچوڑ کر پی لیا اور
پھر لن کو چوپے مارتی اچھی طرح
چوس کر باہر نکل گئی میں اٹھا اور
نہا دھو کر ڈیرے پر گیا اور واپس آیا
تو کھنا تیار تھا کھانا کھا کر میں پھر
ڈیرے کی طف چلا گیا اور دوپہر کو
پھر واپس گھر آگیا، میں جیسے ہی
اندر داخل ہو تو سامنے میری بیٹی
نصرت قمیض کے بغیر کھڑی تھی اور
نصرت نے صرف برا ڈال رکھی تھی لاال رنگ کی برا نصرت کے سفید جسم
پر چمک رہ تھی جس نے نصرت کے
38 کے سایز کے مموں کو ہوا میں اٹھا
رکھا تگا جبکہ نیچے نصرت کی پتلی
کمر اور چپٹا پیٹ ننگا تھا اور کمان
کی طرح کی ننگی کمر نصرت کو
سیکس بمب بنا رہی تھی، اپر نصرت
کی گت نصرت پر چار چاند لگا رہی
تھی نصرت نے نیچے ایک پتلی سی
شلوار ڈال رکھی تھی جس میں
نصرت صاف نظر آرہی تھی میںدروزہ بندہ کر کے آگے اپنی بیٹی کی
طرش بڑھا تو نصرت بھی گھوم گئی
اور مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی
میں نصرت کو دیکھ کر نصرت کی
طرف بڑھا اور نصرت کے قریب پہنچ
کر نصرت سے پوچھا خیر ہے لگتا ہے
گھر میں کوئی نہیں نصرت مسکرا کر
بولی امی اور سعدیہ بازار گئی ہیں
کھلا موقع مل گیا ہے آپ کو گھوڑا
دوڑانے کا آج جی بھر کر گھوڑا
دوڑاییے اور ہنس کر میرے ہونٹچومنے لگی میں نے نصرت کی برا
کھینچ دی جس سے نصرت کے اکرے
ممے تیزی سے اچھل کر باہر نکل آئے
اور میرے سامنے ہلنے لگے نصرت نے
میرا قمیض بھی اتار دیا اور میرے
سینے کو چاٹنے لگی میں نے نصرت
کے تنے مموں کو دبوچ کر نصرت کے گ
لابی نپلز منہ میں بھر کر چوستے
ہوئے کاٹنے لگا نصرت مزے سے کراہ
گئی اور آہیں بھرتی میرے سر کو
مسلنے لگی نصرت نے میری شلوار
بھی گرا دی اور میرا لن نکال کر
مسلنے لگی میں نے اپنی بیٹی کے
ممے چوس چوس کریال کردیے نصرت
کراہ کر ہانپتے ہوئے میرا سر مموں
سے اٹھا کر میرے ہونت چوس کر
بولی ابو اب صبر نہیں ہوتا پلیز اپنا
گھوڑا میرے اندر اب دوڑا دیں نصرت
کے ہنپنے سے نصرت کا کوکا بھی اوپر
نیچے ہو کر مجھے بے تاب کرنے لگا
میں نے آگے ہو کر نصرت کے کوکے کو
منہ بھر کر چوس لیا جس سے ایکمزےدار سرور میرے اندر اتر گیا اور
میں نے لپک کر نصرت کو اٹھایا اور
اندر لے جا کر بیڈ پر لٹا دیا نصرت نے
لیٹتے ہی اپنی ٹانگیں اٹھا لیں میں
نے آگے ہو کر نصرت کی شلوار کھینچ
کر اتار دی نصرت نے اپنی ٹانگیں
کھول کر اپنی پھدی میرے سامنے
کھول دی، نصرت کی پنک پھدے کے
بند موٹے ہونٹ بند اور کھل کر اپنے
باپ کے لن کو سلامی دے رہے تھے
میرا کہنی جتنا لمبا موٹا لن فل تن کرکھڑا تھا اور اپنی بیٹی کی پھدی
میں جانے کو تیار تھا، نصعت کی
پھدی کا گلابی دہانہ بند تھا نصرت ب
الکل کنواری تھی اور میرے لن کو
دیکھ کر ہانپ رہی تھی اور لن کو
اپنی پھدیمیں لینے کو بے تاب تھی میں نصرت
کے پھولتے ناک میں اوپر ہوتے کوکے
کو دیکھ کر بے تاب سا ہو رہا تھا میں
آگے بیڈ پر چڑھ گیا اور اپنی بیٹی
نصرت کی ٹانگیں اٹھا کر نصرت کےکاندھوں سے لگا کر نصرت کی پھدی
فل کھول دی اپنی بیٹی کی گلابی
پھدی دیکھ کر میں بے تاب تھا اور
میں نے اپنے لن کا ٹوپہ اپنی بیٹی
نصرت کی پھدی پر رکھ کر آگے
پیچھے ہوتے ہوئے مسلنے لگا، اپنے
باپ کا لن اپنی پھدی پر محسوس کر
کے نصرت تڑپ کر رہ گئی اور نصرت
کی زوردار کراہ کمرے میں گونج
گیی سرت کی آنکھیں بند تھیں اپنی
بیٹی کی پھدی کے ہونٹ لن پر
محسوس کر کے میں مزے سے بے ھ
ال تھا نصرت کی پھدی پر لن اگے
پیچھے کر کے مسلا اور پھر اپنا لن
اپنی بیٹی کی پھدی کے دہانے پر
سیٹ کر کے ہلکا سا دبا دیا جس
کےٹوپے کی موری نصری کی پھدی
کی موری میں گھس گئی اور نصرت
کی کراہ نکل گئی نصرت کی آنکھیں
بند ہو گئیں اور نصرت نے بے تابی
سے اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں
بھر کر دبا لیا، نصرت زور زور سےسانس لیتی ہانپ رہی تھی جس سے
اس کا کوکا ناک میں اچھا کر مجھے
بے حال کرنے لگا میں نے اوپر ہو کر
لن نصرت کی پھدی پر سیٹ کر کے
زور لگایا تو میرے لن کا ٹوپہ پچ کی
آواز سے میری بیٹی نصدت کی پھدی
کو کھولتا اندر اتر گیا جس سے
نصرت زوردار طریقے سے غرائی
درمیان سے اوپر ہو کر کراہ کر رہ
گئی میرا ٹوپہ نصرت کی پھدی میں
اتر کر پھنس چکا تھا نسرت کیپھدی تپ کر بھٹی بن گئی تھی
نصرت ٹوپہ اندر جاتے ہی مزے سے
بے ہو کر آہیں بھرنے لگی اور اپنے سر
کو بے اختیار ہو کر ادھر ادھر مار نے
لگی میں نصرت کے اوپر جھک گیا
نصرت لن اند لینے کو بے تاب تھی وہ
کراہ کر بولی ابو رک کیوں گیے سارا
لن میرے اندر ڈال دیں میں نصرت
کے کوکے کو دیکھ کر بے قابو ہو رہا
تھا میں کوکے کو دیکھ کر رہ نہ پایا
اور میں نصرت پر جھک کر پوریطاقت سے جھتکا مار کر اپنا کہنی
جتنا لن اپنی نصرت کے اندر آدھا اتار
دیا، میرا لن نصرت کی پھدی کے گلا
بی کو مسلتا ہوا آدھی تک نصرت
کی پھدی میں اتر کر نصرت کی
پھدی کو چیر کر رکھ دیا لن اند اترتے
ہی نصرت درد سے بوکھلا گئی اور
زور دار درد بھری دھاڑ نصرت کے
اندر سے نکل کر کمرے میں گونج
گئی اور نصرت تڑپ کر دوہری ہو کر
میرے سینے سے آگی اور بری طرحکانپتی ہوئی زور سر دھاڑیں مارنے
لگی، نصرت کی ٹانگیں کانپنےلگیں
نصرت اپنے باپ کے کہنی جتنا لمبا لن
آدھا پھدی میں لے کر مشکل میں
تھی نصرت بری طرح کراہ رہی تھی
میں نے زور لگا کر نصرت کی پرواہ
کیے بغیر پیچھے ہو کر پوری طاقت
سے جھٹکا مارا اور اپنا کہنی جتنا لن
اپنی بیٹی کی پھدی میں جڑ تک اتار
دیا میرا لمبا کھردرالن نصرت کی
پھدی کے ہونٹ مسلتے ہوئے نصرت
کی پھدی کو درمیان چیر کر نصرت
کے سینے تک اتر گیا جس سے نصرت
کی درد بھری کرلاٹ نکلی اور...
جاری ہے ۔۔

Post a Comment

0 Comments