جوان بیٹیوں کا رس
قسط نمبر1
میں سرگودھا کے نواحی گاؤں کا
رہائشی ہوں میری عمر50 سال کے لگ
بھگ ہے لیکن میں اس عمر میں بھی
کافی تگڑی صحت کا مالک ہوں گاؤں
میں کچھ زمین ہے جس پر کھیتی
باڑی کر کے گزارہ کرتا ہوں میرا
قدرتی طور پر سٹینما کافی زیادہ ہے
اور میں جنسی طور بھی کافی
طاقت ور ہوں میرا ہتھیار کافی تگڑا
ہے جو کہ12 انچ لمبا اور موٹا بھی3
انچ تک ہے جو کسی بھی عورت کے
برداشت سے باہر ہے یہی وجہ ہے کہ
میری بیوی بھی اس کو برداشت
نہیں کر پائی اور مشکل سے دو ہی
بیٹیاں پیدا کر پائی جس کے بعد اس
کی ہمت جوب دے گئی، گاؤں کی.دوسری عورتیں بھی مجھ سے پناہ
مانگتی ہیں جو ایک مجھ سے چدوا
،لے دوسری بار میرے قریب نہیں آئی
میری دونوں بیٹیاں کافی اچھی
سیرت کی پڑھی لکھی اور سلجھی
نام نصرت ہے نصرت کی عمر28 سال ہوئی لڑکیاں ہیں میری بڑی بیٹی کا
ہے وہ ماسٹر کر چکی ہے چھوٹی
بیٹی کا نام سعدیہ ہے سعدیہ کی عمر
26 سال ہے وہ بھی ماسٹر کر چکی ہے
دونوں غیر شادی شدہ کنواری ہیں.کیونکہ خاندان میں کوئی اچھا رشتہ
نہیں ملا اور خاندان سے باہر کرنے کا
رواج نہیں اس لیے دونوں بہنیں اپنی
جوانی کو سنبھالے بیٹھی ہیں کبھی
ان دونوں نے کوئی غلط قدم نہیں
اٹھایا اور اپنی عزت کی حفاظت کر
رہی ہیں، نصرت کی ایک دوست
تھی جو کہ اس کی ہم عمر تھی اس
کا نام مدثرہ تھا اور ہمارے ہمسائے
میں رہتی تھی نصرت کی اس سے
اچھی خاصی دوستی تھی اور وہ.اکثر ہمارے گھرآتی جاتی رہتی تھی
مدثرہ تیکھے نین نقش والی کافی
خوبصورت لڑکی تھی باہر کو نکلے
بوبس کمان کی طرح کی کمر بڑی
سی گانڈ انتہائی دلکش لگتی تھی
اوپر سے مدثرہ نے ناک میں کوکا بھی
ڈال رکھا تھا جو کہ مجھے بے حال
کر دیتا تھا وہ اکثر ہمارے گھر ہی
رہتی تھی جس کی وجہ سے آہستہ
آہستہ میں نے اسے سیٹ کر لیا مدثرہ
بہت ہی سیکسی اور بھر پور گرم
لڑکی تھی جنونیت اس میں بھری
ہوئی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ میری
جلد ہی دیوانی ہو گئ وہ واحد لڑکی
تھی جو میرا ظالم لن برداشت کر
لیتی تھی ورنہ آج تک کوئی بڑی سے
بڑی عورت بھی میرے آگے ٹک نہیں
پائی، مدثرہ اور میں فل انجوائے کر
رہے تھے اور کسی کو کانوں کان خبر
ہی نہیں تھی ایسے ہی ایک دن میں
مدثرہ کے گھر گیا تو گھر میں کوئی
نہیں تھا مدثرہ اکیلی تھی میں اورمدثرہ موقع پا کر چدائی کرنے لگے
جلدی جلدی میں ہم دروازہ بند کرنا
بھول گئے جب ہم چدائی کے جوبن
مدثرہ کو چود رہا تھا جب ہم منزل پر تھے اور میں پوری شدت سے
پر پہنچنے والے تھے کہ دروازہ کھلا
اور کوئی کمرے میں داخل ہو گیا اس
دوران میں اور مدثرہ کراہیں بھر کر
چھوٹ گئے میرا لن جھٹکے مار کر
مدثرہ کے اندر چھوٹنے لگا تو اتنے
میں اندر آنے والا ہمیں اس حال میں.دیکھ کر بوکھلا گیا اور مجھے کسی
کے چیخنے کی آواز سنائی دی میں
ڈر کر پیچھے مڑا امتع سامنے میری
بیٹی نصرت اپنی دوست مدثرہ کی
پھدی میں میرا جھٹکے مارتا لن
آنکھیں پھار کر دیکھتے ہو منہ پر
ہاتھ رکھ کر کھڑی تھی، اپنی بیٹی
نصرت کو دیکھ کر میرے پاؤں کے
نیچے سے بھی زمین نکل گئ اور میں
بوکھلا کر پیچھے جلدی جلدی ہو کر
لن پھدی سے نکال لیا نصرت پچ کی.آواز سے پھدی سے نکلتے لن کو
دیکھنے لگی جو ابھی منی کی
چھوٹی چھوٹی پچکاریاں مار رہا تھا
نصرت اپنے باپ کے کہنی جتنے لن کو
اپنی دوست کی پھدی میں دیکھ کر
ہکا بکا تھی میں نصرت کو دیکھ کر
باکھلا کر بولا نصرت تم، نصرت جو
کہ آنکھیں پھاڑے اپنے باپ کے لن کو
دیکھ رہی تھی میری سن کر وہ بھی
بوکھلا گئی، اور میری طرف نظر
اٹھا کر دیکھا تو اس کا رنگ اڑا ہوتھا اور اس کا چہرہ پسینے سے
شرابور تھا، نصرت حیرت سے کانپ
رہی تھی جیسے اسے یقین ہی نا آہا
ہو نصرت نے بوکھلا کر مجھے دیکھا
اور جلدی سے مڑی اور کمرے سے
نکل گی یہ سبچند لمحوں میں ہو گیا
اور میں بت بنا وہیں بیتھا رہا، اپنی
بیٹی کے ہاتھوں یوں اس کی دوست
کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے پکڑے
جانے پر شرم سے پانی پانی تھا، پل
بھر میں یوں لگ رہا تھا جیسے میرا...
سب کچھ برباد ہو گیا ہو، مدثرہ کا
بھی رنگ اڑا ہو تھا اور وہ بھی بے
ساختہ مجھے دیکھ رہی تھی کہ یہ
سب کیا ہو گیا، کچھ دیر میں یونہی
بیٹھا رہا میرے ذہن میں کئی
وسوسے آرہے تھے میں پریشان تھا
اور سوچ رہا تھا کہ نصرت کا سامنا
کیسے کروں گا مدثرہ بھی پریشان
تھی میں وہاں سے نکلا اور باہر چلا
گیا، مجھے؛ ب یہی بات پریشان کر
رہی تھی کہ میری بیٹی میرے بارے.میں کیا سوچے گی کہ اس کا باپ
ایسا ہے جو گھر میں جوان بیٹیوں
کے ہوتے ہوئے باہر کی عورتوں کے
ساتھ رنگ رلیاں مناتا ہے، میں اب
خود کو کوس رہا تھا کہ میں نے ایسا
کیوں کیا میں سوچ رہا تھا کہ مجھے
اپنی بیٹیوں کی شادی کا بندوبست
کرنے کرنا تھا پر میں تو اپنے مزے
میں گم ہوں، نصرت کے بارے میں
سوچ کر میں پانی پانی ہو رہا تھا
گھر جانے کی ہمت ہی نا تھی اور نا.،نصرت کا سامنا کرنے کی ہمت تھی
،میں ایسے شام تک بازار گھومتا رہا
دل نہیں کر تھا گھر جانے کو نصرت
کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھا آخر
ڈرتے ڈرتے شام کو گھر پہنچا اور
دروازہ کھول کر اندر چلا گیا تو
سامنے نصرت آٹا گوندھ رہی تھی
نصرت نے آنکھیں اٹھا کر کر میری
طرف دیکھا اور شرما کر نظر جھکا
لی میں بھی شرمندہ سا ہو گیا
نصرت مجھے دیکھ کر خود کوڈھانپنے لگی جس سے میں شرم سے
پانی پانی ہو گیا کہ میری بیٹی مجھ
سے ہی پردہ کر رہی ہے، خود کو یہ
دیکھ کر کوسنے لگا اور اندر چلا گیا
شام کا کھانا کھایا رتو اس زوران
نصرت نے مجھ سے کوئی بات نہ کی
اور اپنے آپ کو مجھ سے چھپاتی
رہی میں اس صورت حال سے کافی
پریشان تھا کچھ دن یہی معمول رہا
نصرت مجھ سے دور رہنے لگی اور
مجھ سے کوئی بات نہ کرتی تھی.میں شرم کے مارے نصرت سے بات
بھی نہیں کر پا رہا تھا مدثرہ جو کہ
راز ہمافے گھر آتی تھی وہ بھی اب
آنا چھوڑ چکی تھی کیوں نصرت نے
اسے اب اپنے باپ کے ساتھ پکڑ لیا تھا
میں کافی دنوں سے اس کے پاس
نہیں گیا، گزرتے دنوں کے ساتھ
نصرت خود ہی ٹھیک ہونے لگی تھی
وہ اب مجھ سے تھوڑی بہت بات کر
لیتی تھی میں بھی اب تھوڑا سکون
محسوس کرنے لگا تھا کہ میری بیٹی...
جاری ہے ۔۔
0 Comments